جبر، مزاحمت، مفاہمت


Babu Nowruz Geronimo

تحریر : ڈاکٹر محمد تقی
ترجمہ : لطیف بلیدی

کوئی یہ سوچے کہ مثال کے طور پر اگر بلوچ کے پاس اپنے فرانس جتنے علاقے کا صرف نصف، انکے گیس اور معدنیات کا ایک معمولی حصہ لیکن دگنی آبادی، بھی ہوتا تو تاریخ کی لہر کیا رخ اختیار کرگئی ہوتی

ستمبر کی 4 تاریخ عظیم اپاچی جنگجو گویاتھلے، جنہیں دوست اور دشمن جیرونیمو کے نام سے بہتر طور پر جانتے ہیں، کی امریکی جنرل نیلسن مائلز کے آگے اپنا ہتھیار ڈالنے کی سالگرہ کا دن ہے۔ 1886ء میں جیرونیمو، جنہوں نے امریکی نوآبادکاروں کیخلاف چیریکاہوا اپاچیوں کے ایک چھوٹے سے جتھے کی قیادت کی تھی، کی مشروط اطاعت والے معاہدے کو مسلح مزاحمت اور دیسی امریکیوں کی جنگوں کا اختتام سمجھا جاتا ہے۔ جیرونیمو، جنہیں شاید تاریخ میں دیسی امریکیوں کا سب سے زیادہ خوفناک اور زبردست مزاحمتی رہنماء سمجھا جاتا ہے، کو آخرکار شکست دینے کیلئے 5000 سے زائد امریکی فوجی اور، زیادہ اہمیت کی حامل، 60 اپاچی اسکاوٹس شریک کار استعمال ہوئے۔ جیرونیمو کو دیگر چیزوں کے علاوہ دو سال کے اندر رہا کرکے ایک تخصیصی جگہ پر رہنے کی اجازت کا وعدہ کیا گیا تھا جس سے وہ تیزی سے مکر گئے۔ انہیں، بشمول خواتین اور بچوں کے، دیگر سینکڑوں چیریکاہوا کے ہمراہ فلوریڈا روانہ کرکے قید کردیا گیا۔ جیرونیمو نے اپنا بیشتر وقت فورٹ پکنز پینساکولا کے اصلاحی قید خانے میں گزارا جبکہ ان کی بیوی کو سینٹ آگسٹین کے فورٹ میریئن میں قید کیا گیا۔

فورٹ پکنز کی جیل انتظامیہ نے مقید قوی جنگجو کیلئے تجسس پیدا کیا اور اس کو دیکھنے کیلئے ٹکٹ فروخت کیے۔ اسکے بعد عظیم جیرونیمو سینٹ لوئس میں ایک سرکس کی نمائش کا حصہ بنائے گئے، عیسائی بنائے گئے اور یہاں تک کہ دیسی امریکیوں کے، کم از کم تخصیصی جگہوں پر، حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں فاتحین کو مطمئن کرنے کیلئے انہیں پانچ دیگر دیسی امریکی قائدین کے ہمراہ صدر تھیوڈور روزویلٹ کے صدارتی افتتاح کے دن پریڈ میں مارچ بھی کروایا گیا۔ انہوں نے حتیٰ کہ اپنی رہائی اور دیسی امریکیوں کے حقوق کیلئے درخواست کرنے کی خاطر صدر روزویلٹ سے ایک ملاقات بھی کی جوکہ امریکی صدر کے راضی نہ ہونے اور جیرونیمو کو غصہ آجانے کے سبب ختم ہوگئی۔

اور پھر امریکی حکومت کی پالیسی مقامی آبادی کو غیر دیسی بنانے کی تھی؛ نوآبادیاتی ریاست جبری انجذاب کی حد تک چلی گئی جہاں سینکڑوں بچوں کو انکے خاندانوں سے دور لے جایا گیا اور انہیں پنسلوانیا کے کارلایل انڈین انڈسٹریل اسکول جیسے بورڈنگ اسکولوں میں ریاست کی سرپرستی میں لے لیا گیا۔ ان بچوں کو، جن میں سے بہت سوں کو فلوریڈا کی جیلوں سے ان کے والدین کی مرضی کیخلاف لیجایا گیا تھا، انگریزی نام دیے گئے اور انہیں مختلف عیسائی فرقوں میں بپتسمہ کروایا گیا تاکہ انہیں ’امریکہ پسند‘ بنایا جائے۔ ان میں سے تقریباً 350 نے جیرونیمو اور دیگر کے پیچھے ٹیڈی روزویلٹ کے افتتاح کے موقع پر مارچ کیا تھا۔ جو کچھ ترقی اور انجذاب کے نام پر کیا گیا اسکی ابتداء دراصل اس وقت کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے جنوب مغرب میں واقع اپاچی علاقے میں نودریافت شدہ سونے پر سب سے پہلے میکسیکو کی اور پھر امریکی فوجوں کے مابین لڑائیوں سے ہوئی تھی۔ جیرونیمو ایریزونا واپس لوٹے لیکن وہ کبھی بھی ایک آزاد شخص نہیں رہے۔ وہ گھوڑے پر سے گرنے کے بعد وفات پاگئے اور ان کا واحد پچھتاوا اور مبینہ آخری الفاظ یہ تھے: ”مجھے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئے تھے؛ مجھے اسوقت تک لڑنا چاہیے تھا جب تک کہ میں اکیلا زندہ آدمی رہ جاتا۔“

فلوریڈا میں پینساکولا اور سینٹ آگسٹین کی وہ دو جیلیں اب بھی ایستادہ ہیں اور انہیں دیکھنے پر وہ کسی کو اکثر شمالی امریکہ کی دیسی امریکی قوم اور بلوچ کے درمیان المناک مماثلت کی یاد دلاتے ہیں۔ دونوں کی قبائلی کنفیڈریسیاں یکے بعد دیگرے تعداد میں زیادہ اور زیادہ مسلح نوآبادیاتی طاقتوں سے لڑتے رہے اور حتیٰ کہ شاید آپس میں فضول بحثوں میں بھی الجھے رہے، انہیں اکثر انکے اپنے بھی دغا دیتے رہے اور اسی اثناء میں وہ اپنی بچی کچھی خود مختاری اور مجروح افتخار کو بھی قائم رکھے رہے۔ دوسری طرف بیرونی طاقتوں نے وہاں کے ’ماقبل تاریخ‘ کے لوگوں کو جدید طرز زندگی میں لانے کے بہانے اول تو مقامی وسائل اور دولت کو نگاہ یشوق سے دیکھا اور پھر انہیں انکی دسترس سے دور کرکے رکھ دیا۔ کوئی یہ سوچے کہ مثال کے طور پر اگر بلوچ کے پاس اپنے فرانس جتنے علاقے کا صرف نصف، انکے گیس اور معدنیات کا ایک معمولی حصہ مگر دگنی آبادی، بھی ہوتا تو تاریخ کی لہر کیا رخ اختیار کرگئی ہوتی۔ تاہم، بالکل واضح حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے بلوچ کو انتہائی آڑے ہاتھوں لیا ہے اور یہ جلد کسی بہتری کی طرف جاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ 1948ء کے بعد سے بلوچ پر ہونیوالے ریاستی جبر کا جواب ہمیشہ سخت مسلح مزاحمت سے ملا ہے لیکن دونوں اطراف میں سے کوئی بھی نہ تو فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوا ہے اور نہ ہی دونوں کے درمیان کوئی بامعنی مفاہمت ہوئی ہے۔

یقینا کوئی یہ امید کر سکتا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ تنازعے کا نتیجہ 1948، 1958، 1963 اور 1973 کی مزاحمتی تحریکوں کے مقابلے میں مختلف نکلے گا لیکن علامات کسی اور نتیجے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے خود ساختہ جلاوطن رہنماء براہمداغ بگٹی صاحب نے بی بی سی اردو کے صحافی عادل شاہ زیب کیساتھ ایک انٹرویو میں نہ صرف پاکستانی حکام کیساتھ، ”اگر فوجی آپریشن روک دیا جاتا ہے تو“، بات چیت کیلئے مشروط رضامندی کا اظہار کیا ہے بلکہ، ”اگربلوچ عوام کی یہ خواہش ہے تو“، وہ ایک آزاد بلوچستان کی اپنی مانگ واپس لینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ بلوچستان میں موجودہ بحران اسوقت شدت اختیار کرگیا جب براہمداغ بگٹی کے دادا اور تجربہ کار بلوچ رہنماء نواب اکبر خان بگٹی کو 26 اگست 2006 میں کیے گئے ریاستی آپریشن کے دوران قتل کیا گیا۔ براہمداغ بگٹی کا اپنے انٹرویو کیلئے اس المناک تاریخ کا انتخاب کرنا قدرے چونکا دینے والا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ صوبائی سویلین پٹھووں کے براہمداغ بگٹی اور دیگر مزاحمتی رہنماوں کیساتھ مذاکرات کے دعووں کے علاوہ بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیے جانے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ دراصل فوجی کارروائیاں میں، خاص طور پر آواران کے علاقے میں، کلیدی گوریلا لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے واضح ارادے کیساتھ زیادہ شدت آچکی ہے۔ مزاحمت کے ہمدردوں، ساتھی ہمراہوں اور عام شہریوں کا اغواء اور گمشدگیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ ہزاروں گمشدہ بلوچوں کے بارے میں بالکل کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے۔ دوسری جانب، وہ لوگ جنکے پاس پیسے سے بھری بوریاں ہیں ان بظاہر ’ہتھیار ڈالنے‘ والوں کو بانٹ رہے ہیں۔ بلوچستان کی جعلی قومپرست حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپنے بے پناہ وسائل پر بلوچ کی خود مختاری کے مسئلے کو اٹھائے بغیر مزاحمتی تحریک کو تہس نہس کرنے کیلئے سیکورٹی اسٹابلشمنٹ کیساتھ ہاتھوں میں ہاتھ لیے کام کر رہی ہے۔ پاکستان کو ایک کثیر النسلی، کثیر القومی فیڈریشن کے طور پر تسلیم کرلینا بلوچ شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے ایک شرط ہے لیکن اس کے بجائے انکی کتاب میں سب کچھ جبری یا تھوپی ہوئی انجذاب اور استحصال ہے۔

براہمداغ بگٹی کی طرف پیش کیے گئے مطالبات کا چارٹر اور اسکی صورتحال قابل احترام بلوچ رہنماء اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے جنوری 2012ء میں پیش کیے گئے چھ نکات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس کا انجام بھی اُس سے مختلف نہیں ہوگا۔ پاکستانی ریاست نے 1948ء کے بعد سے بلوچ کو امن کیلئے کئی پرفریب پیشکش کیے ہیں۔ محترم بلوچ رہنماء سردار شیرباز خان مزاری نے لکھا ہے کہ 1958ء کی مزاحمت کی قیادت بزرگ بلوچ رہنماء نوروز خان زرکرئی کررہے تھے، جنہیں احتراماً بابو نوروز کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ تقریباً دو سال تک ناقابل شکست رہے تو ریاست نے انکے بھتیجے دودا خان کے ہاتھ میں قرآن مجید تھمایا اور اس پیغام کیساتھ بھیجا کہ آپکے سارے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ جس لمحے بابو نوروز اور انکے ساتھیوں نے امن کی پیشکش قبول کی اور سامنے آئے تو فوج نے انہیں گرفتار کر لیا، مختصر سماعت ہوئی اور پھر انہیں پھانسی دیدی گئی ماسوائے بوڑھے بابو نوروز کے۔ بزرگ بلوچ کو ذہنی اذیت دینے کیلئے وہاں لایا گیا اور ان سے لاشوں کے درمیان اپنے بیٹے کی لاش کو شناخت کرنے کیلئے کہا گیا۔ بابو نوروز نے جواب دیا: ”یہ تمام بہادر جوانمرد میرے فرزند ہیں۔“ گویاتھلے جیرونیمو کے برعکس اسی سالہ ضعیف بابو نوروز نے نہ کبھی ہتھیار ڈالے اور نہ ہی کسی افتتاحی پریڈ میں مارچ کیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر بلوچ اور دیسی امریکیوں کی کہانیاں مختلف سمتوں کو جاتی ہیں۔ مصالحتی گفت و شنید اور مفاہمت نہ صرف خواہش انگیز ہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں لیکن براہمداغ بگٹی کو انہیں شکوک و شبہات کیساتھ دیکھنا چاہیے جو کچھ بھی انہیں پیشکش کی گئی ہے یا کی جائیگی۔

dr-mohammad-taqiمصنف سے mazdaki@me.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے

وہ @mazdaki پر ٹویٹس کرتے ہیں

بشکریہ : ڈیلی ٹائمز، جمعرات، 3 ستمبر 2015

To read in English click HERE

Leave a comment

Filed under Interviews and Articles

Leave a comment