تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
وہ کہ جنہیں جیلوں میں رکھا جا سکتا ہو انہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے، اسی طرح سے پختونخوا اور بلوچستان کی جیلوں کو قیدیوں کی گنجائش کی سطح پر رکھا جاتا ہے
چند دن قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے ڈائریکٹرآئی اے رحمان صاحب نے اپنے مضمون ”قیدیوں کے حقوق“ (14 نومبر ، روزنامہ ڈان) میں قیدیوں کو لاحق خطرات پر حال ہی میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں منعقد سیمینار کے بارے میں لکھا تھا جس میں یہاں کی عدلیہ کے درخشاں ستاروں نے شرکت کی تھی۔ قیدیوں کو درپیش دیگر مسائل کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ بھیڑ نے خصوصی توجہ حاصل کی کیونکہ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 21,527 ہے جن میں 52,318 قیدی رکھے گئے ہیں جبکہ سندھ میں 11,939 کی گنجائش کے برخلاف 14,119 قیدی موجود ہیں؛ اسے قطعاً ناقابل برداشت قرار دیا گیا۔