تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
(نوٹ: یہ ان چار مضامین کی چوتھی اور آخری قسط ہے جو بیک وقت شائع ہوئی تھیں)
صورتحال ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں بلوچ کی جدوجہد کو کمزور کرنے کی خواہش میں اسٹابلشمنٹ ایسے اقدامات اٹھانے سے بھی نہیں کترا رہی جو نسل کشی سے قریب تر ہیں
نا انصافیوں نے بلوچ کو نہ صرف اپنے حقوق کیلئے بلکہ اپنی بقاء کیلئے بھی لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسٹابلشمنٹ نے 60 اور 70 کی دہائیوں میں لاطینی امریکہ کی ’غلیظ جنگوں‘ کی طرز پر بلوچ کیخلاف ایک غلیظ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جابر اسٹابلشمنٹ اور اس کی غلیظ جنگ نے بلوچ کیلئے اسکے سوا اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی آزادی کیلئے لڑیں اور یہ عمل 27 مارچ 1948 کے بعد سے شورش یا آزادی کی جدوجہد پر منتج ہوئی ہے۔ موجودہ مرحلہ گزشتہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ شدید اور سب سے زیادہ اہم ہے۔ صورتحال ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں بلوچ کی جدوجہد کو کمزور کرنے کی خواہش میں اسٹابلشمنٹ ایسے اقدامات اٹھانے سے بھی نہیں کترا رہی جو نسل کشی سے قریب تر ہیں؛ آواران میں حالیہ زلزلے کے دوران اسٹابلشمنٹ کی مخالفت کرنے اور بلوچ کی آزادی کیلئے ڈاکٹر اللہ نذر کی بہادرانہ جدوجہد کیلئے ان کی حمایت کرنے پر آواران کے لوگوں کو بغض و عناد کیساتھ سزا دینے کیلئے انہوں نے بین الاقوامی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ منظم غلیظ جنگ میں مرنے والوں کی تعداد گزشتہ تین سالوں میں 700 سے تجاوز کرگئی ہے اور ہزاروں لاپتہ ہیں۔ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے محض زبانی جمع خرچ سے کام لیتا ہے؛ کسی ایک شخص پر بھی فرد جرم عائد نہیں کیا گیا ہے اگرچہ سپریم کورٹ نے اکثر فرنٹیئر کور اور انٹیلی جنس اداروں کے براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ سب بلوچ کی طرف سے کی جانیوالی مزاحمت پر منتج ہوئی ہے جسے عام طور پر شورش قرار دیا جاتا ہے۔