Tag Archives: Ramzan Baloch
اک نیا باب زنداں میں جھونکا گیا
تعارف
عبدالواحد کامریڈ
رمضان بلوچ
یہ سال 1977ء کے اوائل کی بات ہے پورے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی “بھٹو ہٹاو” تحریک پوری شدت کے ساتھ میدان میں آچکی تھی- امن و امان کی صورتحال کافی مخدوش ہوچکی تھی- سڑکوں پر لاقانونیت کا راج تھا- ایسے شورش زدہ ماحول میں کراچی شہر کا ایک علاقہ ایسا تھا جہاں نہ صرف روز مرہ معمولات کے مطابق زندگی رواں دواں تھی بلکہ دیگر علاقوں کے لوگ سکوں و آرام کی تلاش میں سر گرداں یہاں آ کر اطمینان کا سانس لیتے تھے-
Filed under Interviews and Articles
موت کے سائے تلے شجاعت
تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
روزانہ 30 کلومیٹر چلنا کوئی کھیل نہیں ہے، حتیٰ کہ سخت جان لوگوں کیلئے بھی، اور یہاں پر تو نازک اور کمزور لڑکیاں، ایک بوڑھا آدمی اور ایک دس سالہ لڑکا تھے
ماما عبدالقدیر ریکی کے بیٹے شہید میر جلیل ریکی 13 فروری 2009ء میں اغواء کیے گئے؛ وہ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ قدرتی طور پر ماما قدیر نے اپنے بیٹے کی رہائی کی کوشش کی کیونکہ ’مارو اور پھینک دو‘ کی منظم پالیسی کی پیشگی طور ابتداء ہوچکی تھی اور بلوچ کارکنوں کی بری طرح سے مسخ شدہ لاشیں بلوچستان میں ملنا شروع ہوئی تھیں۔ اپنے بیٹے کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوششوں کے بدلے میں انہیں صرف اور صرف جھوٹے وعدے یا دھمکیاں ملیں۔ جب انہیں احساس ہوا کہ ریاست کو اس ظلم و ستم کیلئے شاید ہی کوئی چیلنج کرے تو انہوں نے بلوچ کارکنوں کے اس غیر انسانی اور ظالمانہ اغواء اور قتل کیخلاف احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس احتجاج کو اب 2,287 دن پورے ہوچکے ہیں۔ 28 جولائی 2009ء کو پریس کلبوں کے باہر علامتی بھوک ہڑتالی احتجاج کیے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ 27 ستمبر 2009ء میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے ایک تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز قائم کی گئی، ماما قدیر بطور اس کے وائس چیئرمین اور نصراللہ بلوچ، جن کے چچا اصغر بنگلزئی کو 2001ء میں اغوا کیا گیا تھا، بطور اس کے چیئرمین۔
Courage under fire
Filed under Mir Mohammad Ali Talpur
Courage under fire – Mir Mohammad Ali Talpur
Walking up to 30 kilometers a day is no mean feat even for a hardy lot and here were those delicate and weak girls, an old man and ten-year-old boy
Mir Jalil Reiki Shaheed, son of Mama Abdul Qadeer Reiki, was abducted on February 13, 2009; he was the information secretary of the Baloch Republican Party. Mama Qadeer naturally strove to secure the release of his son because the systematic policy of ‘kill and dump’ had started in earnest and the severely mutilated bodies of Baloch activists had started appearing in Balochistan. All he got in return for his efforts to secure his son’s safety was false promises or threats. Realising that the state was hardly being challenged for its atrocities, he decided to start a protest against the inhuman and unjust abductions and killings of Baloch activists. The protest is now 2,287 days old. There was a token hunger strike protest outside the press clubs on July 28, 2009. Moreover, on September 27, 2009 the Voice of Baloch Missing Persons (VBMP), an organisation for the recovery of the missing Baloch, was formed with Mama Qadeer as vice chairman and Nasrullah Baloch, whose uncle Asghar Bangulzai was abducted in 2001, as chairman.
موت کے سائے تلے شجاعت
Filed under Mir Mohammad Ali Talpur