تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
روزانہ 30 کلومیٹر چلنا کوئی کھیل نہیں ہے، حتیٰ کہ سخت جان لوگوں کیلئے بھی، اور یہاں پر تو نازک اور کمزور لڑکیاں، ایک بوڑھا آدمی اور ایک دس سالہ لڑکا تھے
ماما عبدالقدیر ریکی کے بیٹے شہید میر جلیل ریکی 13 فروری 2009ء میں اغواء کیے گئے؛ وہ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ قدرتی طور پر ماما قدیر نے اپنے بیٹے کی رہائی کی کوشش کی کیونکہ ’مارو اور پھینک دو‘ کی منظم پالیسی کی پیشگی طور ابتداء ہوچکی تھی اور بلوچ کارکنوں کی بری طرح سے مسخ شدہ لاشیں بلوچستان میں ملنا شروع ہوئی تھیں۔ اپنے بیٹے کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوششوں کے بدلے میں انہیں صرف اور صرف جھوٹے وعدے یا دھمکیاں ملیں۔ جب انہیں احساس ہوا کہ ریاست کو اس ظلم و ستم کیلئے شاید ہی کوئی چیلنج کرے تو انہوں نے بلوچ کارکنوں کے اس غیر انسانی اور ظالمانہ اغواء اور قتل کیخلاف احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس احتجاج کو اب 2,287 دن پورے ہوچکے ہیں۔ 28 جولائی 2009ء کو پریس کلبوں کے باہر علامتی بھوک ہڑتالی احتجاج کیے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ 27 ستمبر 2009ء میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے ایک تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز قائم کی گئی، ماما قدیر بطور اس کے وائس چیئرمین اور نصراللہ بلوچ، جن کے چچا اصغر بنگلزئی کو 2001ء میں اغوا کیا گیا تھا، بطور اس کے چیئرمین۔