کوئٹہ واقعہ سے قبل ظاہر ہے بلال کاسی صاحب نے فورسز کی چیک پوائنٹس پر رک کر اپنی پہچان بتائی ہوگی۔ اپنے کیسز کی فائلز بھی دکھائی ہوں گی ۔ قتل ہونے کے بعد بلال کاسی کی لاش کو شعبہ حادثات اور جائے وقوعہ کے درمیان آنے والے چیک پوسٹوں میں حفاظتی انتظامات کے پیش نظر ’’ را‘‘ کا سراغ لگانے والے اہلکاروں نے روک کر چیکنگ کے بعد شعبہ حادثات تک پہنچانے کی اجازت دی ہوگی۔
حملے کے بعد فورسز نے جس چابکدستی سے چند عام لوگوں کو گرفتار کیا اور میڈیا میں انہیں ’’،مبینہ‘‘ شدت پسند قرار دے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ اب ان کے لواحقین اس مرگ ناک امید میں ہیں کہ کس معلوم مقام سے ان لاپتاؤں کی لاشیں ملیں، کیوں کہ بلوچستان کی جدید تاریخ لاپتہ لوگوں کے بازیاب لاشوں کی اپنی ایک الگ داستان رکھتی ہے۔اس داستان نے لواحقین کو اپنے پیاروں کی زندہ بازیابی کی امید سے زیادہ مسخ شدہ لاش کی شکل میں وصولنے کے لئے ذہنی حوالے سے پہلے ہی تیار رکھا ہے۔ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں۔میں خود کئی ایسے افراد کی گمشدگی کا گواہ ہوں جنہیں فورسز نے اغواء کیا ہے۔ لیکن سی پیک چونکہ تعمیر کے مراحل میں ہے۔ اس لئے لوگ جب لاپتہ ہوجائیں تو اس کا سرکاری مطلب یہ ہے کہ لاپتہ شخص’’ نامی شخص‘‘ کہیں پر تھا ہی نہیں۔ اور اگر کوئی مارا جائے تو پلک جھپکتے میں سی پیک کے خلاف ’’را‘‘ کے ہاتھوں کھیلنے والا دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔اگر لاپتہ شخص کے زبان دراز رشتہ دار اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کریں تو ان کی آواز کو منہ میں ہی بند رکھنے کے لئے فورسز کے پاس کرنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے، جیسے کہ خاموش ہوجاؤ یا لاپتہ ہوجاؤ، خاموش ہو جاؤ یا خاندان کے کسی فرد کی لاش وصول کرو۔ کیوں کہ لاپتہ شخص ایک خیال تھا۔ جو سالوں سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا اور اچانک ایسے گیا کہ۔۔۔ اس کا خیال ہی رہ گیا۔
خیر، بلوچستان میں ایسے ہزاروں چھپے داستان موجود ہیں جنہیں سننے کے لئے حساس ذہن چاہیے۔ بات حساس ذہنوں کی ہوتی ہے تو بلوچستان کے وکلاء ظاہر ہے کسی سے بھی زیادہ حساس ہیں۔ حساس اداروں کی حساسیت سے بھی زیادہ حساس۔اتنا حساس کہ انہیں موت ہی بے حس کردے۔لیکن یہ سوال کسی غریب الحس شخص کو بھی جھنجوڑ نے کے لئے کافی ہے کہ کوئٹہ کی ہر گلی کے شروع، درمیان اور آخر میں ’’را‘‘ پر نگاہ رکھنے والے سیکیورٹی فورسزکی عقابی نظروں سے ایک بارود بردار شخص کیسے سول ہسپتال تک پہنچ گیا، جہاں تک پہنچنے میں چیک پوسٹوں میں اپنی پہچان بتاتے بتاتے روزانہ کئی ملازموں کی ڈیوٹیاں قضا ہو جاتی ہیں۔میں بلوچستان سے دو سال قبل ہی نکل چکا ہوں لیکن میرا خیال اُدھر ہی ہے۔ روز معلوم کرتا ہوں ، اور روز یہ سنتا ہوں کہ فورسز کی تعداد اور چوکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہیں۔ اس کے باوجود وہاں تک بغیر فورسز کی رضامندی سے را کا پہنچ جانا سمجھ سے بھاری بات ہے۔ بلوچستان کا کوئی بھی باشندہ شریفوں کی شرافت کا احترام کرنے کے باوجود بھی اس سفید جھوٹ پر اپنا سر اثبات میں نہیں ہلا سکتا کہ یہ حملہ ریاستی اداروں کی مرضی کے برعکس ہوا ہے۔
یہ سوال میں خود سے کرتا ہوں کہ ایک کتاب رکھنے والا نوجوان فورسز کی پہلی چیک پوسٹ سے ہی گرفتار ہوتا ہے لیکن ہزاروں میل دور سے ہدایت لینے والا ایک ایجنٹ کیسے اطمینان سے اتنی منصوبہ بندی کرسکتا ہے، اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے؟ یہ سوالات تو ’’را‘‘ ذہنیت والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے بلوچستان میں ’’را‘‘ اب کسی بیرونی خفیہ ایجنسی کا نام نہیں بلکہ سوال کرنے والے لوگوں کی پہچان بن چکا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے کئی ایسے را ایجنٹ اسلامی قلعہ کے محافظوں کے ہاتھوں قلی کیمپ منتقل ہوگئے، اور وہاں سے مسخ شدہ لاش کی شکل میں کسی گلی یا ویران علاقے میں۔
ہماری روایت ہے کسی گھر میں کوئی واقعہ ہوجائے تو سارا محلہ اس کی دلجوئی میں اکھٹا ہوجاتی ہے اور اس گھر میں آنے والے مہمانوں کے کھانے پینے کی بندوبست ہمسایہ کرتے ہیں۔ کسی مقتول کے گھر ایسی باتیں نہیں کی جاتیں جس سے اس کے لواحقین کی دل آزاری ہو۔ لیکن چونکہ راحیل ہوں کہ نواز، ہمارے لئے دونوں یکساں ہی ’’شریف ‘‘ ہیں۔ اس لئے ہمارے معاشرے کی روشن دماغوں پر حملہ کرکے اسے سی پیک پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ جس سے اب پشتونوں کو بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے روشن مستقبل، اور اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ایک پوری لاٹ بھلے ہی چلا جائے۔ لیکن چائنا سے آنے والی سڑک نہ جائے کیوں کہ غلام تو ہوتے ہیں جانے کے لئے ہیں۔چیف آف ’’شریف‘‘ صاحب اسے کسی سڑک یا کاروباری کمپنی پر حملہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس بات کو ورد جاری رکھنے والے کئی انوارالحق کاکڑ ، مالک و سرفراز بگٹی اس کے پیچھے موجود ہیں۔ لیکن جن خاندانوں نے اپنے بچے کھوئے ہیں انہیں اس کے بدلے کچھ بھی دیا جائے وہ اپنے بچھڑے ہوؤں کو ہی روئیں گے۔
بلوچستان در حقیقت ایک شور کرتا جنگ زدہ خطہ ہے، لیکن پاکستانی میڈیا کی نظر میں جیسے بلوچستان کے لوگ اگر کسی دن کا شدت سے منتظر ہوں تو وہ 23مارچ اور 14اگست ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی بلوچستان کے اصل حقائق سے واقف ہے تو اسے پاکستان کے جھنڈے اور تقریبات صرف وہاں نظر آتے ہیں جہاں نقاب پوش مسلح اہلکار موجود ہوں۔ کوئی شخص ایک دن میں ایک چیک پوسٹ سے جتنی مرتبہ بھی گزرے، اسے یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں گیا، کہاں جارہاہے ، واپس کب آئے گا۔ چند گالیاں اور اکثر بیشتر تضحیک کے لئے گالیوں کے علاوہ ہتھیار بھی موجود ہیں ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک طرف عام لوگ سی پیک کے محافظوں سے اس طرح کی امتحان سے روزانہ گزرتے ہیں لیکن دوسری طرف مذہبی شدت پسندوں کی ایک پوری فوج جس علاقے میں چاہے اپنا کیمپ قائم کرسکتی ہے۔ پاکستان کی نظر میں ’’را‘‘ کے نشانے پر موجود پسنی اور گوادر کے ساحل جیسے ’’حساس‘‘ علاقے میں بھی ملا میران اپنے گروہ کے ساتھ بلوچوں کو قتل کرکے غزوہ ہند شروع کرنے کی بات کرتے ہیں۔ پسنی کے ساحل میں لشکر خراسان کے امیر اپنے کئی مجاہدوں کے ساتھ سمندر میں مستیاں کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ اس حساس علاقے میں یا حساس ادارے جا سکتے ہیں، یا انہیں حساس اداروں کے لشکر خراسان جیسے مردم کُش اور بے حس ادارے۔ یہ لوگ گوادر میں سی پیک کا دفاع کرنے اور بلوچوں کو قتل کرنے میں فورسز کے ہمکار ہیں۔ اور بقول شریف اور زہری صاحب ایسے لوگ ہی سی پیک پر حملہ بھی کررہے ہیں۔اس سفید جھوٹ اور عجلت ساختہ بیان کو فرض کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن پاکستانی تجزیہ کاروں نے اسی بیان کو لیکر فتویٰ بازی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی۔ اس بات کو بلوچستان میں پھلنے والا ذہن کبھی تسلیم نہیں کرسکتا کہ مذہبی شدت پسندوں اور پاکستان آرمی کے نکتہ نگاہ میں کہیں پر کوئی فرق موجود ہے۔چاہے وہ سی پیک کا معاملہ ہو ، بلوچستان کی تحریک کو ختم کرنے کا معاملہ یا پھر افغانستان پھر قبضے کے بے منطق خواب کو عملی جامہ پہنانے کی لاحاصل کوشش ہو۔اگر سادہ لفظوں اور آسان لفظوں میں کوئٹہ واقعے کو بیان کیا جائے تو یہ بلوچستان کے بلوچ اور پختونوں کے دماغ پر پاکستان کا حملہ تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے شریفوں کو صرف سی پیک ہی نظر آتا ہے۔ ان کا تکیہ کلام ہی سی پیک بنا ہوا ہے۔اس سڑک کی تعمیر سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے اقتدار کی مضبوطی اور کاروبار کی توسیع کے لئے استعمال کی لالچ میں پاکستان آرمی بلوچ سرزمین کو بلوچ کے لہو سے ہی سرخ کررہا ہے۔بلوچستا ن میں جہاں جہاں سے یہ سی پیک جارہی ہے وہاں اب تو کوئی بلوچ بھولے سے بھی نہیں جا سکتا۔پنجاب کی ممکنہ خوشحالی کی قیمت لاکھوں بلوچ خاندانوں نے نکل مکانی، قتل عام اور اغواء کی صورت میں پہلے سے ہی ادا کرنا شروع کی ہے۔ آواران سے لیکر گوادر تک سی پیک کے راستے میں کئی ایسے خاموش دیہات موجود ہیں جہاں یا جھلے مکانات کے کھنڈرات بچے ہوئے ہیں یا پھر صرف قبرستان ہی رہ گئے ہیں۔میرا اپنا خاندان بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے سی پیک کے ’’تقدس ‘‘ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے گھر بار چھوڑ دئیے۔ کئی ایسے خاندان جو اس مقدس سی پیک کی حفاظت کے شرائط پر پورا نہ اتر سکے زندہ لاپتہ ہوکر مسخ چہروں کے ساتھ واپس آئے۔ کولواہ ایسے کئی مجرموں کا گواہ ہے جنہوں نے اپنے گھروں سے نکلنے میں دیر کرنے کی جرم کی اور سزا کے طور پر نشانِ عبرت بنا دئیے گئے۔ لاکھو ں کی تعداد میں فورسز کی حفاظتی دہشتگردی کا چشم دید گواہ کیسے ’’شریف ‘‘ صاحب کی اس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ کوئٹہ میں ہونے والا حملہ سی پیک پر حملہ تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئٹہ کا حملہ در اصل اُس کتاب پر حملہ تھا جو جائے واقعہ پر کسی عاشق کی خون سے سرخ و سفید ہوکر ایک خاموش پیغام دے رہا تھا۔
پاکستان آرمی کی نظر میں ہر کتابی مشکوک ہوتا ہے اور اگر یہ کوئی بلوچ نوجوان ہوتو اس کا قتل عین وطن پرستی ہے۔یہ بات اس طرح سے بھی غلط نہیں ہو سکتا کہ کتاب اور پاکستانی معاشرے میں رشتہ لاتعلقی کی حد تک دور ہوچکے ہیں۔ اندرونِ بلوچستان فورسز کی چوکیاں ایسے لوگوں کی تفتیش کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں جنہوں نے جیب میں قلم یا ہاتھوں میں کتاب رکھا ہو۔ میرے والد صاحب مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کو پڑھایا کہ آپ ہمارے لئے کچھ اچھا کرسکیں لیکن آپ کی وجہ سے ہم بے گھر ہو رہے ہیں۔ (میری پڑھائی بھی میٹرک تک ہے)۔ ظاہر ہے کوئٹہ کے وہ وکیل جو کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں مجھ سے کئی گنا زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ علم ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں عِلم رکھتے ہیں کہ پورا معاشرہ قاتلوں کا علمبردار ہے۔انہیں اس معاشرے میں جینے کا کوئی حق نہیں۔
کتابوں کے عاشق ہی معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو قریب لاتے ہیں اور اعتماد اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ کتابوں کے عاشق اگر وکیل ہوں تو ظاہر ہے کہ ان کا واستہ باالواسطہ معاشرے کے تمام طبقات سے ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی بلوچستان میں وکیل ہو تو یقینی طور پر ’’را‘‘ کو ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ اس کی جانب سے اغواء کی گئی کسی مغوی کے کیس کو یہی وکیل نہ لڑیں اس لئے کہیں سے کوئی خودکش بمبار خاردار تاروں، ریاستی خفیہ ایجنسیوں، ہزاروں چوکیوں و چیک پوسٹوں سے بچتا بچاتا ایک وکیل کو قتل کرتا ہے۔ اور پھر یہی شخص اس انتظار میں دام بچھاتا ہے کہ باقی وکیل اس کی لاش لینے آئیں گے تو سب کو خود سمیت ہلاک، شہیداور جاں بحق کردے۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کی ایک اور کوشش یہ بھی ہے کہ جب کہیں سے کوئی شخص لاپتہ کیا جائے تو اس کے خلاف کسی تھانے میں ایف آر درج نہ کی جائے، کیوں کہ یہ سہولت صرف ان کے لئے ہے جو کبھی وجود رکھتے تھے بقول سرکارِ ریاست کے، لاپتہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں۔ اگر کہیں کسی نے غلطی یا مجبوری کے تحت کوئی ایف آر درج کیا ہو تو روز کوئی نہ کوئی ’’را‘‘ والا اس خاندان کے سربراہ کو شفیقانہ انداز میں مرنے اور لاپتہ ہونے کے لئے تیار رہنے یا ایف آر نکالنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی تجویز دیتا ہے۔
’’را‘‘ نے جو کرنا تھا اس نے کیا۔ ایک پورے معاشرے کو ماتم پر بٹھانے کے بعد شریف صاحب فرما رہے تھے کہ کومبنگ آپریشن کیا جائے۔ یعنی کہ یہ ماتمی تھوڑے کم ہیں، اس موقع کو غنیمت جان کر سی پیک مخالفین کو ختم کیا جائے۔ اس سی پیک کے مخالفین بھی عجیب ہیں، مرتے رہتے ہیں لیکن مخالفت نہیں چھوڑتے، ان چرواہوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اپنے وطن سے زیادہ کسی دوسرے ملک کی سڑک کو اہمیت کیونکر دی جاسکتی ہے۔ انہیں نہ جیٹ جہاز سمجھانے میں کامیا ب ہوئے ہیں، نہ مسخ شدہ لاش اور نہ ہی طارق جمیل کا نظریہ جنت، اور اب جب کومبنگ آپریشن ہوگا تو ظاہر ہے اس کا رخ سی پیک کے مخالفین کی جانب ہوگا کیوں کہ کوئٹہ کا حملہ سی پیک پر جو تھا۔ ایک مرتبہ پھر اعلان کیا جارہا ہے کہ ’’را‘‘ کو سبق سکھایا جائے گا۔ بقول شخصے پاکستان تو ہمیشہ سے ’’را‘‘ ہی کو سبق سکھاتا آرہا ہے خود کچھ نہیں سیکھتا۔ بہرحال بلوچستان اس اعلان کے بعد منتظر ہے جاری آپریشن میں آنیوالی شدت کا، لاپتہ افراد کے لواحقین بھی منتظر ہیں کہ کس جعلی مقابلے میں ان کا سالوں سے لاپتہ لخت جگر مارا جائے۔لیکن اس لختِ جگر کو اب کون یہ سمجھائے کہ ’’را‘‘ سے تمہارا تعلق کسی دفتر میں جوڑ دیا گیا ہے، اب تمہاری قتل سے کسی فوجی کی رینک میں اضافہ ہوگا، حب الوطنی میں وہ اپنے جونیئرز سے ایک نمبر آگے ہوگا۔ ظاہر ہے اتنے بلند و بالا مرتبے کے لئے کسی خاندان کے پیارے کا چھن جانا کوئی’’ گھاٹے‘‘ کا سودا نہیں۔
ویسے یہ سوال اب بھی مجھ میں کھٹک رہا ہے کہ کوئٹہ بڑے شہر میں کوئی اسٹوڈنٹ ایک کتاب لیکر کوئی چیک پوائنٹ کراس نہیں کرسکتا، کوئی شخص اپنے گھر جاتے ہوئے دسیوں بار یہ سوال روزانہ سنتا ہے کہ کہاں جارہے ہو؟ ان سب کے باوجود اس شہر میں ایک منصوبہ بند قتل کیسے کامیا بی سے سرانجام پا سکتا ہے؟
جواب جیسے کہ اوپر بیان کیاگیا ہے انتہائی سادہ ہے، یہ ریاست کی جانب سے بلوچ اور افغان معاشرے کی دماغ پر حملہ ہے۔ یہ اِن معاشروں کی مستقبل پر ایک ضربِ کاری کی کوشش ہے۔ بزرگ بلوچ کا یہ مقولہ بالکل سچ ثابت ہورہا ہے کہ ’’غلامی کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے، اتنی زیادہ نقصان اُٹھاؤ گے
Courtesy: Daily Sangar