پاکستان کے د فاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل ( ر) طلعت مسعود کے بقول حکو مت نے مسئلہ بلوچستان کے حل کے لئے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اور اس لئے یہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’حکمراں جماعت (ن) لیگ کا اتحادی ہونے کے باوجود بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بھی یہ کہہ رکھا ہے کہ وزیراعظم بلوچستان کو بھول گئے ہیں، میرے خیال میں بلوچستان کی صورتحال پر سنجیدہ توجہ نہ پہلی حکومت نے دی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کوئی موثر قدم اٹھا رہی ہے۔ اس لئے علیحدگی پسندوں کی تحریک زور پکڑتی جار ہی ہے۔‘‘
ماضی کی طرح بلوچستان کی مخلوط حکومت بھی کئی بار علیحدگی پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہے مگر اس مقصد میں کامیابی کے آثار اب تک سامنے نہیں آئے۔ صوبائی حکو مت کے ترجمان جان محمد بلدی کے بقول بلوچستان کے مسئلے کا حل ان کی ترجیہات میں شامل ہے تاہم اس میں وقت ضرور لگے گا، ’’ہمارے جو بس کی بات ہے ہم ان تک پہنچ سکتے ہیں، ہماری حکومت اور پارٹی دونوں کی یہ پالیسی ہے کہ ہم مذاکرات کریں اور اس معاملے کا حل نکالیں۔ ہم نے بہت کوششیں کی ہیں اور ہماری ایک واضح پالیسی ہے کہ جو عسکری تنظیمیں ہیں اور جو مزاحمت کار ہیں انہیں مذاکرات کے میز پر لائیں اور یہ معاملہ حل کریں۔‘‘
11 اگست کے اس دن کی مناسبت سے صوبے کے کئی علاقوں میں آزاد بلوچتسان کے جھنڈے بھی لہرائے گئے اور مٹھیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ جبکہ بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ان مظاہروں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو تنقید کا نشا نہ بنا یا گیا۔