
ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس لاش کی حالات اور طریقہ واردات ویسا ہی ہے، جس طرح سے پہلے لاشیں ملتی رہی ہیں۔
تیسری جماعت کے طالب علم چاکر بلوچ پنجگور کے گاؤں پروم کے رہائشی تھے اور حال ہی میں تربت منتقل ہوئے تھے۔
ان کے ستر سالہ والد خدا دوست زمینداری کرتے ہیں جبکہ بڑے بیٹے بلوچستان کی قوم پرست جماعت سے وابستہ ہیں۔
چاکر بلوچ کے خاندان کے ایک فرد نے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’چاکر کو تربت شہر کے مچھلی بازار کے قریب گلی سے موٹر سائیکل سوار دو افراد اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے تھے۔ تھوڑا آگے جاکر ایک دوسری موٹر سائیکل پر سوار دو اہلکار بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے، ان تمام لوگوں کے چہرے کھلے ہوئے تھے، لیکن خوف کے باعث لوگ چشم دید گواہ خاموش ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ چاکر کے والد خدا دوست پر بھی کچھ عرصہ پہلے فائرنگ کی گئی تھی، جس میں وہ بچ گئے، اس سے پہلے چاکر کے 16 سالہ کزن ثنااللہ کو پنجگور سے اٹھایا گیا جو ابھی تک لاپتہ ہے، چھاپوں سے تنگ آ کر خاندان کے کئی نوجوان علاقہ اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ایک مقامی اخبار میں خبر شائع ہو چکی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بلوچستان سے 10 سے زائد نوعمر لڑکوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان سے اشتعال انگیز مواد برآمد ہوا ہے۔
تربت کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سات جنوری کو چاکر بلوچ لاپتہ ہوا، اسی روز بارش ہو رہی تھی، ایک ہاسٹل اور دیگر مقامات پر چھاپے مارکر کچھ نو عمر لڑکوں کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
چاکر بلوچ کے پوسٹ مارٹم کے دوران جسم پر تشدد کے نشانات کی تو تصدیق ہوئی ہے لیکن جنسی زیادتی کی کوئی علامت نہیں ملی۔
چاکر کے قبیلے کی ایک معزز شخصیت نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بچے کا قتل معمہ ہے کیونکہ یہ خاندان علاقے میں مہمان ہے اور کوئی انھیں نہیں جانتا تھا، اسی طرح ان کی کسی سے کوئی ذاتی رنجش بھی نہیں اور بلوچ روایت میں بچے اور خواتین پر کبھی وار نہیں کیا جاتا۔