اتوار کو تمپ میں کیا ہوا تھا؟


پرامن جلسے میں خواتین، بچے اور مرد شریک تھے اور وہ سب بلوچی میں شاعری سن رہی تھے کہ اچانک یہ پرامن منظر خونی کھیل میں بدل گیا؛ شہناز بلوچ

ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Shahnaz Baloch (School Teacher)

Shahnaz Baloch (School Teacher)

بلوچستان کے علاقے مند کی رہائشی بائیس سالہ شہناز پہلی مرتبہ جلسے میں شریک ہونے تمپ گئیں، اسی ایک قدم نے ان کی زندگی کو سنگین خطرے سے دو چار کر دیا۔

 تمپ شہر میں اتوار کو ایف سی اہلکاروں کی فائرنگ میں زخمی ہونے والی خواتین میں شہناز بھی شامل تھیں، وہ ایف سی اہلکاروں سے مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے نوجوان شاعر میر جان میرل کے سوئم کے سلسلے میں تمپ ہائی سکول میں منعقد جلسہ میں شریک تھیں۔

  وہ بتاتی ہیں کہ اس پرامن جلسے میں خواتین، بچے اور مرد شریک تھے اور وہ سب بلوچی میں شاعری سن رہی تھے کہ اچانک یہ پرامن منظر خونی کھیل میں بدل گیا۔

 ’ملیشیا فورس کے اہلکاروں نے چاردیواری کا محاصرہ کیا اور ایک دم اندر داخل ہوئے، انہوں نے نہ تو جلسہ ختم کرنے کے لیے اور نہ ہی لوگوں کو وہاں سے جانے یا منتشر ہونے کے لیے کہا، صرف لوگوں پر لاٹھیاں اور گولیاں برسانے لگے‘۔

Shaheed Mukhtar Baloch

Shaheed Mukhtar Baloch

 اشکبار شہناز بتاتی ہیں کہ ان کے بیس سالہ چچا زاد بھائی کو گولی لگی اور وہ زمین پر گر گیا، وہ ان کی طرف دوڑیں تو وہ بھی گولی کا نشانہ بن گئیں اور دیگر خواتین انہیں اٹھاکر تمپ ہسپتال لے آئیں، جہاں ڈاکٹر نے ڈرپ لگائی جس کے بعد گاڑی میں ڈال کر تربت ہسپتال پہنچایا گیا اور وہاں سے کراچی لایا گیا ہے۔

 اس فائرنگ میں شہناز کے چچا زاد بھائی، میٹرک کے طالب علم مختار بلوچ ہلاک اور ان کے والد عبدالرحمان زخمی ہوگئے۔

 شہناز مند میں سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال کے پرائمری سکول میں ٹیچر ہیں انہیں گلے میں گولی لگی جو آرپار ہوگئی ہے، ان کے مطابق ان کا دایاں ہاتھ اور بازو سن ہوگئے ہیں، انہیں آکسیجن کی نلکی لگی ہوئی اور بات کرنے میں سخت تکلیف محسوس کرتی ہیں۔

 میں نے ان سے معلوم کیا کہ وہ جلسے میں کیوں گئی تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچوں کو ان کہ حق اور سہولتیں نہیں مل رہے۔ مثلا گیس سوئی نکلتی ہے اور ہم ایرانی گیس سلینڈر (ایل پی جی) استمعال کرتے ہیں، جو کبھی کبھی ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے تک میں ملتا ہے‘۔

 شہناز کے والد عبدالرحمان رند بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی تاریک ہوگئی ہے ان کی نوجوان بیٹی بستر مرگ پر ہے اور بھتیجا جسے انہوں نے بیٹے کی طرح پالا تھا ہلاک ہوگیا۔

Abdul Rahman

Abdul Rahman

’یہ سوچ کر دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ملک کی خاطر جان دی ہے، کوئی جرم نہیں کیا تھا صرف پر امن جلسہ میں شرکت کی تھی‘۔

 عبدالرحمان نے اپنی زخمی پیٹھ دکھاتے ہوئے کہا کہ ’ایف سی نے ایسے حملہ کیا جیسے دشمن ملک کی فوج پر کیا جاتا ہے‘۔

عبدالرحمان ڈمپر ٹرک کے مالک ہیں اور بیٹی کے علاج کے لیے انہوں نے اپنی زمین بیچ ڈالی ہے، ان کے مطابق تربت ہسپتال میں تو ملیریا کا علاج بھی نہیں ہوتا ہے اس لیے وہ بیٹی کو کراچی لائے ہیں۔

عبدالرحمان رند کا کہنا تھا کہ ’جلسہ کرنا اور اس میں شرکت، ہر کسی کا جمہوری حق ہے۔ اس واقعے کے بعد بھی وہ اپنے بچوں کو کسی جلسے میں جانے سے نہیں روکیں گے‘۔

Source: BBC Urdu

 

 

 

 

 

 

1 Comment

Filed under News

One response to “اتوار کو تمپ میں کیا ہوا تھا؟

  1. Pingback: Sept 06: Shaheed Mukhtar Baloch « Baluch Sarmachar

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s