تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
میں اس بات کا قائل ہوں کہ اگر وعدے بم ہوتے تو یہاں ایک بھی زی روح زندہ نہ بچتا۔ وعدے سستے داموں ملتے ہیں اور یہ لوگوں کو ان چیزوں کی بابت باور کرانے کیلئے بہ آسانی دستیاب ہتھیار ہے جنہیں عام صورت میں لوگ ردی سمجھ کر رد کردیتے ہیں۔ یہاں پر حتیٰ کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے عدالتوں کے وعدوں، مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے، پانی پر گاڑیاں چلانے اور اچھے طالبان کی کسی صورت حمایت نہ کرنے کے پختہ مگر خالی خولی وعدوں پر بھی مکمل طور پر یقین کر لیا جاتا ہے۔ لوگ سادہ لوح اور وعدہ ساز پُرفریب طور پر چالاک ہیں جو لوگوں کی انتہائی حد تک مختصر یادداشت کی بیماری پر انحصار کرتے ہیں جس میں یہاں کے لوگ مبتلا ہیں اور وہ ہمیشہ نبھائے نہ گئے وعدوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق اُس خود ساختہ مقدر پرستی سے ہے جو اس خطے کے لوگوں کی نفسیات کا حصہ ہے اور اس کا زیادہ تعلق مذہب اور طویل نوآبادیاتی نظام کے اثرات سے ہے جس میں تعلیم اور میڈیا کے ذریعے ’ریاستی بیانیے‘ کے غالب اثر و رسوخ کا تذکرہ اگر خارج ہو؛ ایک ایسا بیانیہ جس نے بنیاد پرستی کی شیطانیت، جمود اور بلا چون و چرا سرخم تسلیم کرنے کو فروغ دیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے جو یہاں پھلی پھولی ہے۔