تحریر: بے نظیر شاہ
ترجمہ : لطیف بلیدی
بہت سے دیگر لوگوں کی طرح ماما قدیر کا بیٹا بھی غائب ہوا اور پھر مردہ پایا گیا۔ کئی سالوں بعد بھی وہ یہ جاننے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں کہ کیوں۔
کوئٹہ، پاکستان:- چند لوگ ہی قدیر ریکی سے بات کرنا چاہتے ہونگے، اور اس سے بھی کم انکے بارے میں بات کرنا چاہتے ہونگے۔
ہوسکتا ہے اس 75 سالہ شخص کو لوگ عقیدتاً پیار سے ”ماما قدیر“ کے نام سے پکارتے ہیں، اردو زبان میں اس کے معنی ”چچا“ کے ہیں، لیکن بہت سوں کا ماننا ہے ان سے زیادہ قربت خطرناک ہے۔ماما قدیر کئی سالوں سے ایک ایسی چیز پر احتجاج کررہے جس پر حکام کا دعویٰ ہے کہ اسکا کوئی وجود نہیں ہے، یعنی ان افراد کی گمشدگی جو شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پاکستانی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں جہاں سیکورٹی فورسز 2005 کے بعد سے ایک مسلح علیحدگی پسند تحریک کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ماما قدیر اپنے بیٹے کو اس ممنوع تنازعے کی ہلاکتوں میں شمار کرتے ہیں۔