#SaveWahidBaloch کتابوں کا مجنوں لاپتہ ہوگیا


160728075938_wahid_baloch_640x360__nocredit

تحریر: ساجد حسین
ترجمہ: لطیف بلیدی

میں کبھی بھی اس بات پہ یقین نہیں کر پاوں گا کہ انہوں نے وہ تمام کتابیں پڑھیں ہوں گی جو انہوں نے خرید ی ہیں۔ انہوں نے وہ کتابیں درجنوں میں خریدی ہیں۔ مہینے میں ایک بار میں نہیں۔ تقریباً ہر ہفتے۔

”کافکا کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ اردو میں مجھے کہاں سے ملے گا؟“

اور وہ کراچی کے اردو بازار میں کتابوں کی ایک دکان تک میری رہنمائی کرتے جسے گوگل کا نقشہ بھی کبھی تلاش نہیں کر پائے گا، حتیٰ کہ 2050ء میں بھی نہیں۔

”آصف بھائی سے کہو، مجھے کامریڈ نے بھیجا ہے۔ وہ تمہیں 50 فیصد رعایت دے گا۔“

The bookman goes missing

انہیں کتابوں سے محبت تھی۔ ادب۔ فلسفہ۔ تاریخ۔ سیاست۔ روئے زمین پر موجود ہر موضوع کی کتابوں سے وہ محبت کرتے تھے۔ اگرچہ میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ وہ خریدنے کے ساتھ ساتھ ان کو پڑھنے کے بھی شوقین تھے۔

”ایسے لوگوں کو کتابی کیڑا کہا جاتا ہے،“ سندھی نقاد اور افسانہ نگار ممتاز مہر، میرے ادبی سرپرست، نے مجھ سے کہا جب ہم سحر انصاری اور کامریڈ عبدالواحد بلوچ کو فریئر ہال میں کتابوں کا ڈھیر خرید تے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں تعمیر شدہ عمارت کے سرسبز لان میں ہر اتوار کو استعمال شدہ، نئی اور پائریٹد کتابوں کو سستے داموں فروخت کیا جاتا تھا۔

لیکن صدر کے ریگل چوک کی ایک تنگ گلی میں مٹی کی زمین پر بکھری ہوئی استعمال شدہ کتابیں اور بھی سستی تھیں۔ میں نے اپنی بیشتر کتابیں وہیں سے خریدیں۔ اگر اسٹال کے مالک کو مصنف کا ادبی قد کاٹھ معلوم نہ ہو تو وہ صرف پانچ روپے میں آپ کو ایک انمول کتاب بیچ دیتا۔

”اسے یہاں سے مت خریدو،“ کامریڈ نے مجھے بے خبری میں اچانک گلے لگاتے ہوئے کہا جب میں پوسٹ ماڈرنزم پر ایک کتاب خریدنے ہی والا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ”میں نے یہی کتاب اس کونے والے اسٹال پر دیکھی ہے۔ اس کے پاس گاہک کم آتے ہیں، وہاں تمہیں یہ سستا ملے گا، اور وہاں یہ کتاب بہتر حالت میں ہے۔“

ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی جیب میں تھوڑے سے پیسوں کے ساتھ میں ہمیشہ سستے داموں استعمال شدہ کتابیں خریدنے کیلئے ان کے مشورے کا احترام کرتا۔ ”اُن (ریگل چوک کے اسٹالوں پر کتاب بیچنے والوں) کو پتہ نہیں کہ کس کتاب کی قیمت کیا ہے۔ لیکن وہ بہت ہوشیار ہیں۔ وہ تمہارے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ کبھی بھی انہیں یہ نہیں دکھانا کہ تم اس کتاب کے لئے مرے جا رہے ہو۔“

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میرے تلاش کرنے سے قبل ہی وہ ہر اچھی کتاب خرید لیا کرتے تھے۔ اتوار کو سویرے جاگنا کسی تشدد سے کم نہ تھا۔ تاہم میں ریگل چوک کے بک اسٹالوں پر ان سے یا دوسروں سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا، لیکن ناکام رہتا۔ میرے پہنچے سے قبل وہ وہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے پہلے ہی سے وہ کتابیں خرید لی ہوتیں جنہیں میں خریدنا چاہتا تھا۔

ممتاز مہر، جو کہ خود ایک زبردست پڑھاکو ہیں، ہر اتوار کو فریئر ہال یا ریگل چوک میں کامریڈ یا انصاری کو کتابوں کا ڈھیر لگاتے دیکھتے اور ہر تھوڑی دیر بعد حیرت سے پوچھتے کہ ”کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ واقعی ان تمام کتابوں کو پڑھتے ہونگے؟“ میرا جواب نفی میں ہوتا۔ حتیٰ کہ آج بھی۔

لیکن کامریڈ صرف کتابوں کی خریداری میں ملوث نہیں تھے۔ بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ بلوچی کتابوں کی اشاعت کے بھی وہی ذمہ دار رہے ہیں۔

بلوچی کتابوں کیلئے کوئی مناسب پبلشنگ ہاوس نہیں ہے۔ کوئی شاعر کچھ پیسے بچا کر اپنا مسودہ اور پیسے کامریڈ کو بھیج دیتا، اور وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ اس کی کتاب شائع ہو اور کتابوں کی اہم اسٹالوں تک پہنچ جائے۔ وہ ایک یک شخصی پبلشنگ ہاوس تھے۔

کراچی میں ڈیجیٹل اشاعت کی مقبولیت سے قبل مسودے کو پرنٹنگ کے عمل سے پہلے رقم کاری کی ضرورت ہوتی تھی یعنی ٹائپ سیٹنگ اور فلمنگ وغیرہ۔ اگر مصنف کے بھیجے ہوئے پیسے اس کی کتاب کی پرنٹنگ کے لئے ناکافی ہوتے تو کامریڈ ٹائپ سیٹنگ کی طرح کے ان کاموں میں سے کچھ خود کر لیا کرتے۔ اگر انہیں کسی کتاب پر یقین ہوتا تو وہ اس کی اشاعت کیلئے سارا خرچہ خود اٹھاتے۔

”وہ یہ پیسے کہاں سے لاتا ہے؟ میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اس آدمی پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے،“ ایک بار ایک دوست نے مجھ سے کہا۔ اور یہ سوال بلوچ ادبی حلقوں میں اکثر پوچھا جاتا تھا۔

کامریڈ سول اسپتال کراچی میں ایک ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ لوگ ان کے ذرائع آمدنی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے جب وہ انہیں کتابوں کے ڈھیر خریدتے یا انہیں بلوچ مصنفین کی کتابوں کی مفت پرنٹنگ کرواتے دیکھتے۔

”وہ (مصنف) کہتے ہیں کہ وہ پیسے بھیج دیں گے۔ ان کی کتاب چھپنے کے بعد، وہ میرا فون تک نہیں اٹھاتے۔ اور پھر دوبارہ کوئی اپنا مسودہ پرنٹنگ کیلئے مجھے بھیج دیتا۔ میں اسے کہاں لے جاوں؟ کراچی میں تقریباً تمام پرنٹرز کا قرضدار ہوں،“ وہ کہتے ہی چلے جاتے۔ ایک مایوس کن خودکلامی کے انداز میں۔

مجھے اب بھی تعجب ہے کہ انہیں کامریڈ کیونکر کہا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی دور میں ایک کٹر سوشلسٹ ہوا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی بھی ان کے سیاسی پس منظر پر بات نہیں کی۔ لیکن کراچی کے کتابوں کی دکانوں اور اسٹالوں پر ہماری بات چیت کے علاوہ، تقریباً ہر بار میرا کراچی پریس کلب کا دورہ کرنے پر ان سے سامنا ہوتا۔ وہ اپنے بچوں، بیوی اور ایک کیمرے کے ساتھ وہیں ہوتے۔ وہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی ریلیوں میں حصہ لیتے، ان کی تصاویر لیتے اور ان کی پوسٹروں کو پرنٹ کروانے میں مدد کرتے۔

”تمیں پتہ ہے کہ وہ ان تصاویر کا کیا کرے گا؟“ ایک اور مشکوک دوست، اور ان جیسوں کی کوئی کمی نہ تھی، نے مجھ سے پوچھا۔ ”وہ یورپ جانا چاہتا ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ وہ پناہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ تصاویر وہاں پر ان کے پناہ لینے کے دعوے کی دلیل کے طور پر کام آئیں گی۔“ اس نے یقین محکم کے ساتھ اپنا فرمان جاری کیا۔

جب 2009ء میں فوج نے بلوچ کارکنوں کو مارنا اور پھینکنا شروع کیا تو وہ دوست پاکستان چھوڑ کر چلا گیا اور یورپ میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ میں بھی بھاگ نکلا، اگرچہ میں یورپ نہ جاسکا، جزوی طور پر اپنی کاہلی کے سبب۔

یہ وہ وقت تھا جب بلوچ مرد ریلیوں میں شرکت کرنے کی ہمت کیا کرتے تھے۔ میری طرح کے بلوچ صحافیوں کو یہ پتہ ہی نہ تھا کہ کونسا لفظ یا فقرہ کسی کی موت کا باعث بن سکتا ہے جب آپ جبری گمشدگیوں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں پر لکھ رہے ہوں۔

Wahid Baloch _VBMPلیکن حال ہی میں اب بھی ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلیوں میں کامریڈ کو حصہ لیتے تصاویر کو دیکھتے۔ میرے شک میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ اب تک زندہ کیوں ہے؟ فوج اس آدمی کو کیوں نہیں اٹھاتی؟ وہ پاکستان سے کیوں نہیں بھاگے، ان بلوچ مردوں کی اکثریت کی طرح جنہوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کیے گئے لوگوں اور ان کی لاشوں کو پھینکنے کے خلاف کبھی بھی کچھ کہا ہوا ہو؟

میں جب کبھی بھی جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک بینر تھامے ان کی تصویریں دیکھتا تو وہ مجھے اپنے دوست کے الفاظ یاد دلاتے: ”اس آدمی میں ضرور کچھ گڑبڑ ہے۔“

آخر کار وہ بھی لاپتہ ہوگئے۔ 26 جولائی 2016ء کو وہ اندرون سندھ سے کراچی سفر کر رہے تھے تو سہراب گوٹھ سے نقاب پوش افراد کی طرف سے انہیں اٹھایا لیا گیا۔

مجھے حیرت ہے کہ آخر وہ نقاب پوش افراد کون تھے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ فوج کے لوگ تھے، چونکہ دوسروں کی نسبت وہ اس طرح کی حرکتیں زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ کسی پرنٹنگ ہاوس کے مالک کی طرف سے بھیجے گئے ہوں تاکہ ان سے اپنے پیسے وصول کرسکیں۔

بشکریہ: بلوچستان ٹائمز، 27 جولائی 2016

Leave a comment

Filed under Write-up

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s