تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
افغانستان کے بارے میں لکھنا مشکل ہے حتیٰ کہ ان لوگوں کیلئے بھی جو وہاں رہتے ہیں اور تقسیم کے تمام اطراف کے لوگوں کیساتھ رابطے میں ہیں۔ افغانستان کے حقیقی تجزیہ کار کبھی بھی بے دھڑک بات نہیں کرتے اور اپنے خیالات اور نقطہءنظر کو لوگوں کے سامنے بڑی احتیاط اور ہیجان کیساتھ پیش کرتے ہیں چونکہ افغانستان کم از کم چار دہائیوں سے مختلف لوگوں کی آمد کا شکار رہا ہے۔ وہاں اکثر حکومت مختلف ہاتھوں میں تبدیل ہوتی رہی ہے اور بیشتر تشدد کے ذریعے، تو لہٰذا یہ تقسیم، تنازعہ اور سیاسی بے چینی نہ صرف شدید ہے بلکہ نقصان دہ اور زہریلی بھی۔ آپ وہاں محبت اور ہمدردی کی توقع نہیں کر سکتے جہاں طویل عرصے سے بڑی شدت کیساتھ نفرت کے شعلے بھڑکائے گئے ہوں، بہت سوں کی طرف سے جن کے دلوں میں افغان عوام کیلئے کوئی محبت نہیں ہے یا وہاں پر امن ان کے مفاد میں نہیں۔ افغانستان نہ صرف اپنے جغرافیہ بلکہ اپنی تاریخ کا بھی شکار رہا ہے؛ گھمنڈی طاقتوں کے مفادات اور ان کے مختار کل کارندوں نے افغان عوام پر فقط مصائب کا انبار لگایا ہے۔