”وائے وطن ہُشکیں دار“


Books on Balochistan confiscated

تحریر: میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی

Mir Muhammad Ali Talpurکرسچن یوہان ہائنرخ ہائن (13 دسمبر، 1797 تا 17 فروری، 1856) ایک صحافی، مضمون نگار اور سب سے اہم جرمن رومانی شاعروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ہٹلر سے ایک سو سال قبل، جب انہوں نے وہ کتابیں جلائیں جنہیں نازی وطن دشمن اور تخریبی سمجھتے تھے، کہا تھا کہ، ”جہاں کہیں بھی انہوں نے کتابیں جلائیں، ان کا انجام انسانوں کو جلانے پر ہوگا“ اور نازی دور حکومت میں بالکل ایسا ہی ہوا اور یہ نہ صرف جرمنوں کیساتھ ہوا بلکہ یورپ بھر کے عوام کیساتھ۔ کتب سوختگی کے عمل کو ببلیوکلاسم یا لبریسائیڈ کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے اسلئے کیا جاتا ہے کیونکہ حکمران تحریری الفاظ اور علم سے خوفزدہ ہوتے ہیں؛ اسکی ایک طویل تاریخ ہے اور اختیارداروں کا اختلاف رائے اور لوگوں کی جداگانہ حیثیت کا خوف اسکے فروغ کا باعث ہوتے ہیں اور اسکا مقصد عوام کو انکے جوابی بیانیے سے محروم کرنا ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر چند کتابوں کیساتھ شروع ہوتی ہے لیکن مقتدرہ کے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کیساتھ یہ آہستہ آہستہ وسعت اختیار کرلیتی ہے۔

BALOCHISTAN: RAIDING THE BOOKS, PATRONIZING THE POPPY CULTIVATION

پاکستانی مقتدرہ نے اب بلوچستان میں کتابیں جلانا شروع کی ہیں اگرچہ انہوں نے کتابوں پر توجہ وقف کرنے سے کافی پہلے بلوچ عوام کو جلانا شروع کر دیا تھا۔ یہ توجہ اس استحصال اور جبر کیخلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کا نتیجہ ہے جو 27 مارچ 1948ء سے جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے پولیس نے گوادر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے اور ”وائے وطن ہشکیں دار“ نامی کتاب ضبط کی جسے میجر مجید نے لکھا ہے جو مسقط میں رہتے ہیں۔ کتاب کے عنوان کا مطلب ہے، ”مشتاقِ مادر وطن خواہ کیوں نہ ہو یہ سوکھا بن۔“ یعنی کہ، کسی کا مادر وطن خواہ کوئی بنجر زمین ہی کیوں نہ ہو، یہ اسے جنت سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ مقتدرہ نہیں چاہتی کہ بلوچ اپنے مادر وطن سے محبت کریں اس کے بجائے یہ انہیں اپنے پاکستان کی پوجا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

انہوں نے بلوچستان کی تاریخ پر دو معروف کتابیں بھی ضبط کیں، لالہ ہتو رام کی ’تاریخ بلوچستان‘ اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ’بلوچ‘، اور دکان کے مالک کو گرفتار کیا؛ ایک روز قبل دو دکانداروں کو اسی طرح کے الزام میں تربت سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ پر کتابیں رکھنا اب ایک جرم ہے۔ جورج اورویل یہ بات بخوبی سمجھتے تھے کہ مقتدرہ کس طرح سے کام کرتی ہے اور انہوں نے بجا طور پر کہا تھا کہ، ”لوگوں کو تباہ کرنے کا سب سے موثر طریقہ انہیں اپنی ہی تاریخ کی تفہیم سے محروم کرنا اور اسے مٹانا ہے۔ پاکستانی مقتدرہ نے بلوچ قوم کو علم سے محروم کرنے اور انکی اپنی تاریخ کی تفہیم کو مٹانے کے ذریعے تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔

بلوچ کو ان کی تاریخ کے بارے میں علم سے محروم کرنے کی تازہ ترین کوشش کی پیشروی 13 جنوری کو عطاء شاد ڈگری کالج تربت میں منعقد ایک کتب میلے پر فرنٹیئر کور (ایف سی) کی طرف سے لگائے چھاپے سے کی گئی۔ اس چھاپے کے بعد ایف سی کے ایک لیفٹیننٹ کرنل محمد اعظم نے ڈھینگیں مارتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان دشمن لٹریچر، کتابیں، نقشے، پوسٹر اور بینرز ضبط کی ہیں اور بی ایس او (آزاد) پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر اپنے مقاصد کیلئے طلباء کو استعمال کررہی ہے۔ بلوچستان میں برٹرینڈ رسل، گاندھی، نہرو اور دیگر کی لکھی گئی کتابوں کو تخریبی قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہی کتابیں پنجاب یونیورسٹی میں لگے ایک حالیہ کتب میلے میں آزادانہ طور پر دستیاب تھیں؛ آپ اسے دہرا معیار کہیں یا کچھ اور کہنا چاہیں مگر یہ بلوچ کو دنیا سے بے خبر رکھنے کی ایک منظم کوشش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بلوچ صرف ان کی تراشیدہ کتابیں پڑھیں جو منظم طریقے سے ماضی اور حال کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں اور انہیں ایسی کسی چیز کے پڑھنے کے مواقع سے محروم کریں جو ریاستی بیانیے کے برخلاف ہو اور تاکہ اس سے انہیں بلا چوں چرا سرخم تسلیم کرنے والے اذہان مل سکیں۔

ریاست اور اس کے ادارے جنہیں کتابوں اور روشن خیال بلوچوں سے نفرت ہے، منشیات فروشی کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہ میرے تخیل کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ایک وزیر نے اسمبلی میں یہ بیان دیا تھا۔ 29 مارچ کو بلوچستان اسمبلی نے حکومت سے افغانستان کی سرحد سے ملحق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں سیراب زمینوں کے ہزاروں ایکڑ اراضی پر پوست کی کاشت کے خاتمے کے مطالبے کی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ یہ قرارداد صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے ایوان میں پیش کی تھی جس میں کہا گیا کہ پوست کی کاشت سزا سے استثنیٰ کیساتھ کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ”قلعہ عبداللہ حشیش کی کھلے عام فروخت کیلئے بدنام ہے۔ ضلع میں ہیروئن کی تقریباً 120 فیکٹریاں ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ، ”پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی)، اینٹی نارکوٹکس فورس اور حتیٰ کہ پاکستان آرمی بھی قلعہ عبداللہ میں موجود ہے لیکن پھر بھی یہ غیرقانونی کاروبار پنپ رہا ہے۔“ ایک اور رکن عبید اللہ بابت نے کہا کہ، ”وہاں کچھ مذہبی لوگ ہیں جو یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ میں انہیں مذہبی لوگ نہیں سمجھتا کیونکہ وہ ماحول کو پراگندہ کر رہے ہیں۔“ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ مقتدرہ جو روشن خیال کتابوں کو تو تخریبی سمجھتی ہے لیکن ہیروئن اور افیون جیسے خطرناک منشیات پر نہایت لاپرواہ ہے جو بنی نوع انسان کیلئے حقیقی عذاب ہیں۔

ان مجرمانہ سرگرمیوں پر آنکھیں موند لینے کا مطلب پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی)، اینٹی نارکوٹکس فورس اور پاکستان آرمی سمیت تمام اداروں کے درمیان ہر سطح پر ایک ملی بھگت موجود ہے۔ بظاہر اس کو مذہبی منظوری بھی حاصل ہے چونکہ ایک رکن نے کہا تھا کہ مذہبی لوگ بھی ملوث ہیں۔ اس جرم کو فروغ دینے اور برداشت کرنے کی محض ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے جو کہ بڑے پیمانے پر ملنے والا وہ منافع ہے جسے منشیات کی تجارت ان لوگوں کیلئے لاتی ہے جو اس کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کیلئے بھی جو اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اخلاقیات، اقدار، مذہبیت، ضمیر اور تقویٰ سب ایک گہری نیند سوجاتے ہیں جب انہیں ڈالر اور روپیوں کی لوری سنائی جائے اور قلعہ عبداللہ میں بالکل یہی ہو رہا ہے۔ اس کی کوئی امید نہیںہے کہ یہ ادارے جلد ہی اس خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں گے کیونکہ 6 مئی 2011ء میں انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور (آئی جی ایف سی) میجر جنرل عبیداللہ خان نے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں پوست کی کاشت کے خاتمے کا آغاز کیا تھا لیکن بظاہر یہ غیر قانونی کاروبار پھلا پھولا ہے۔

یقینی طور پر ان 120 فیکٹریوں میں تیار ہونیوالا تمام ہیروئن مقامی طور پر استعمال نہیں ہوتا، اور یقینا یہ پاکستان میں اندازے کیمطابق 6.4 ملین منشیات کے عادی افراد تک حرکت بعید (ٹیلی پورٹیشن) کے ذریعے نہیں پہنچتا ہے کیونکہ سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ اس کام کو انجام دے سکے۔ یہ ہیروئن مختلف راستوں سے آتا ہے جنکی نگرانی قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے کرتے ہیں اور یہ تب تک کراچی نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس پر لگی آنکھیں اندھی نہ ہوں؛ پیسہ اختیارداروں کے اندھے پن کو یقینی بناتا ہے۔ رپورٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ افغان ہیروئن کا 40 فی صد یعنی تقریباً 240 ٹن پاکستان کے ذریعے گزر کر دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچتا ہے۔ ہر قدم پر بہت سارا پیسہ کمایا جاتا ہے اور اس وجہ سے کوئی اسے روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتا؛ درحقیقت جنہیں اس سے منافع ملتا ہے وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسا کہ قلعہ عبداللہ کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔

ایک قابل اور پڑھے لکھے بلوچ کا مطلب ایک زیادہ پر عزم قومپرست ہوگا اور پاکستانی اسٹابلشمنٹ اسی سے خوفزدہ ہے۔ وہ بلوچ جو جبری گمشدگیوں کا شکار بنے، وہ کہ جن کی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینکی گئیں اور وہ کہ جنہیں جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیا، تعلیم یافتہ اور اپنے آپ کو اپنے مقصد کیلئے وقف کیے ہوئے بلوچ تھے، جنہوں نے مطالعہ اور بلوچ کیخلاف روز روا رکھی جانیوالی ناانصافیوں کا مشاہدہ کرکے سیاسی سمجھ بوجھ حاصل کی تھی۔ اس طرح کے بلوچ مقتدرہ کی بلوچ اور بلوچستان کو غلام رکھنے کی پالیسی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں اور لہٰذا انہیں ماردیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف بدنام زمانہ منشیات کے بے تاج بادشاہ امام بھیل اور ان کے صاحبزادے یعقوب کو ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی کے قابل احترام ارکان کے طور پر ریاست کی سرپرستی حاصل ہے۔ قلعہ عبداللہ منشیات کی تجارت کیساتھ پھل پھول رہا ہے جبکہ نیو کاہان، آواران، مشکے، ڈیرہ بگٹی، مری علاقے، قلات اور وہ جگہیں جہاں لوگوں میں ریاستی جبر کیخلاف غم و غصہ ہے فوجی کارروائیوں اور دہشت کے راج کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ قلات میں قیاساً 40 عسکریت پسندوں کی حالیہ ہلاکتیں اسکی ایک مثال ہے۔ یہ ’لاشوں کی تعداد‘ والی پالیسی ہے جسے امریکی فوج نے ویت نام میں اپنائی ہوئی تھی اور تمام ہلاک شدگان کو ویت کانگ قرار دیا جاتا تھا جبکہ یہاں انہیں ”عسکریت پسند“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے مقابلوں میں زیادہ تر عام بلوچ مارا جاتا ہے اور اسوقت اس طرح کے مقابلے عروج پر ہیں اور یہ ’مارو اور پھینک دو‘ والی پالیسی کی جگہ لے رہے ہیں۔

بلوچستان میں کتب سوختگی جاری رہے گی کیونکہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ سیاسی اور انقلابی کتابوں کی تجارت کبھی بھی اتنا منافع بخش ہوگی جتنا کہ پوست کی کاشت اور قلعہ عبداللہ کی ہیروئن فیکٹریاں ہیں اور یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہوگی کہ اسے پاکستانی مقتدرہ کی سرپرستی حاصل ہو۔ تاہم بلوچ نوجوانوں کو پرمغز کتابوں کے ذریعے علم حاصل کرنا جاری رکھنا چاہئے خاص طور پر ان کتابوں کے ذریعے جنہیں پاکستانی ریاست اپنے اس جعلی اور من گھڑت اقدار کیلئے خطرہ تصور کرتی ہے جو وہ بلوچ پر مسلط کرنا چاہتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ مذہب قومیت کی بنیاد ہے۔ یہ وہ مخصوص اقدار ہیں جنکا وہ سب سے برتر و اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو قلعہ عبداللہ میں تو ہیروئن اور افیون کی تجارت کو پنپنے کی اجازت دیتا ہے لیکن ان لوگوں پر ظلم و جبر کرتا ہے جو علم کے متلاشی ہوں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوں۔ بلوچ کیلئے انتخاب واضح ہے اور اس بات کا فیصلہ ان پر منحصر ہے کہ وہ قلعہ عبداللہ والے اقدار کی تقلید کرنا چاہتے ہیں یا ”وائے وطن ہشکیں دار“ والے اقدار کی۔

مصنف 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے بلوچ حقوق کی تحریک سے وابستہ ہیں

وہ @mmatalpur پر ٹویٹس کرتے ہیں

اور mmatalpur@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

بشکریہ : نیکڈ پنچ 10 اپریل 2014

Leave a comment

Filed under Mir Mohammad Ali Talpur

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s