
تحریر : امتیاز احمد
ترجمہ: لطیف بلیدی
میر محمد علی ٹالپر، جو بلوچستان میں ”لاپتہ افراد“ کیلئے لڑ رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کوئی حالیہ رجحان نہیں ہے۔
میر محمد علی ٹالپر ان چند پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ”لاپتہ افراد“ یا جبری طور پر غائب کیے گئے متاثرین کا مسئلہ اٹھایا ہے جو انہیں سیکورٹی اسٹابلشمنٹ کی نظروں میں لے آیا ہے۔
ٹالپر کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے اور ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ ان سے ملنے والے لوگ بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نظروں میں ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں وہ ٹی ٹو ایف، کراچی کا ایک کیفے جو انسانی حقوق کے کارکنوں کے حوالے سے مقبول ہے، کے ایک مباحثے کے پینل پر تھے جس میں ”لاپتہ افراد“ پر بحث کی گئی تھی، اسکے بعد ٹی ٹو ایف کی بانی سبین محمود کو اسوقت گولی مار کر قتل کیا گیا جب وہ گھر جارہی تھیں۔
Mir Mohammad Ali Talpur: Voice of missing people in Balochistan
کراچی پولیس نے اس قتل کیلئے ایک آدمی کو گرفتار کیا جسکے بارے میں قیاس کیا گیا تھا کہ وہ داعش سے منسلک ہے۔ لیکن 65 سالہ ٹالپر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ اس قتل کا مقصد ہر پاکستانی کو یہ پیغام بھیجنا تھا کہ انہیں بلوچ کاز سے خود کو لاتعلق کرلینا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ”وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی اس بارے میں بولے۔“بلوچستان پھر سے کئی خستہ حال عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے چلائی جانیوالی ایک بھرپور شورش کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ وسائل سے مالا مال اور کم آبادی والے صوبے میں فوج گزشتہ ایک دہائی سے فوجی کارروائیاں کر رہی ہے لیکن اسکے محدود نتائج نکلے ہیں۔
فوجی آپریشن اور باہر کے لوگوں کی موجودگی کی مخالفت کرنے والے سینکڑوں افراد کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور زیادہ تر واقعات میں ان کے بارے دوبارہ کبھی نہیں سنا گیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے گروہ کیمطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بلوچستان سے تقریباً 18,000 افراد کو اغواء کیا گیا ہے۔ 2009ء کے بعد سے لاپتہ بلوچ کارکنوں کی 700 سے زائد پھینکی گئی لاشیں کراچی اور بلوچستان بھر سے ملی ہیں۔
لاشیں بلاکسر مسخ کی جاتی ہیں، بسا اوقات شناخت نہ ہونے کی حد تک، اور ان پر تشدد اور گولیوں کے زخموں کے نشانات ہوتے ہیں۔ انکے قاتل عام طور پر لاشوں کو ایک کاغذ کی پرچی پر لکھے گئے اس شخص کے نام کیساتھ منسوب کرتے ہیں تاکہ انکے رشتہ دار انہیں پہچان سکیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان، ملک کی معروف انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم، کی جانب سے حکومت سے ان ہلاکتوں کا نوٹس لینے کیلئے بار بار کیے گئے مطالبات کا جواب مکمل خاموشی کی صورت میں ملا ہے۔
فوج اور سیکیورٹی ادارے ٹالپر جیسے لوگوں، جو اپنی آواز بلند کرتے ہیں، کا باقاعدگی سے پیچھا کرتے ہیں اور انکی جان نہیں چھوڑتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”لاپتہ افراد“ کا مسئلہ کوئی حالیہ رجحان نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ”تاہم، یہ اب زیادہ منظم ہے اور بلوچ قوم کیخلاف جاری غلیظ جنگ کا یہ ایک اہم حربہ ہے“، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے لاپتہ ہوئے سینکڑوں افراد کے واقعات کی فہرست مرتب کی ہے۔
ٹالپر، جن کے ہاتھ کئی سال قبل تشدد سے معذور ہو گئے تھے، 1970ء کی دہائی سے بلوچ عوام کے حقوق کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں بطور صحافت کے ایک طالب علم کے بلوچستان، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، میں گڑبڑ کے خاتمے کیلئے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے بھیجی گئی سرکاری فوج کیخلاف جنگ میں حصہ لینے کیلئے اپنی تعلیم چھوڑ دی۔
سن 1977ء میں بھٹو کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد بلوچستان کی صورتحال پرسکون ہوئی جب فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے سرکاری افواج واپس بلا لیں اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا۔
مگر ٹالپر کا کہنا ہے کہ 2013ء میں 46 ارب ڈالر لاگت کی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے منصوبوں، جو بلوچستان کے طول و عرض سے گزر کر صوبے کے جنوبی سرے پر واقع ایک بندرگاہ گوادر پر اختتام پذیر ہوگی، کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد صورتحال نے مزید وحشت ناک شکل اختیار کر لی ہے۔
ٹالپر کہتے ہیں کہ بلوچ اس کی تعمیر کیخلاف مزاحمت کریں گے کیونکہ اس منصوبے سے مقامی لوگوں کو بہت کم یا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ سی پی ای سی سے ”صرف چینیوں اور پنجابیوں کو فائدہ ملے گا“ اور یہ کبھی پایہء تکمیل کو نہیں پہنچے گا ”جب تک کہ آخری بلوچ اس کیخلاف کھڑا رہے گا۔“
وفاقی حکومت، جو وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ہے، نے اپنی طرف سے یہ عندیہ دیا ہے کہ کسی بھی طرح کی مزاحمت کو وہ طاقت کیساتھ کچلیں گے۔ چونکہ جس طرح سے سیکورٹی اسٹابلشمنٹ وہاں کی اتھل پتھل کی کوریج کو روکتا ہے اس سے صوبے، جسے میڈیا نے ”معلومات کا بلیک ہول“ قرار دیا ہے، کو مستقبل میں مشکل ترین حالات کا سامنا ہوگا۔
(نوٹ: خود میر محمد علی ٹالپر کیمطابق انکے ہاتھ ایک حادثاتی دھماکے میں معذور ہوئے تھے نہ کہ تشدد سے جیسا کہ اس مضمون بتایا گیا ہے)
بشکریہ: ہندوستان ٹائمز، اسلام آباد، فروری 07، 2016