تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
گوادر کی عسکریت کاری اور رنگبھیدی نظام جیسے اقدامات کا نفاذ کوئی بے ترتیب عمل نہیں ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے کہ بلوچ کو انکے حقوق سے ہر طرح سے مکمل طور پر محروم کیا جائے
گوادر ایک غیر معمولی طور پر مقناطیسی شے لگتی ہے جس نے مختلف قوتوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ لگتا ہے کہ چین اس کیلئے سب سے زیادہ لگاو اور کشش رکھتا ہے۔ یہ سپر پاور کی حیثیت کیلئے ایک نیا حریف ہے اور یہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جہاں پر جیسے تیسے کرکے یہ اپنے اثرات پھیلا سکے۔ یہاں پر اسے پاکستانی اسٹابلشمنٹ کی شکل میں ایک آمادہ ساتھی مل گیا ہے جو کم از کم ایک علاقائی طاقت بننے کا خواہش مند بھی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ گوادر میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن سے ان کو اپنے متعلقہ مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ان دونوں میں یکساں خصلت جداگانہ حیثیت کیخلاف انکی نفرت اور منافع اور زمین کیلئے انکی لالچ ہے۔ چین، اپنی زمین کے اتنے بڑے ٹکڑے کے باوجود، جنوبی چین کے سمندر میں متنازعہ علاقوں کی زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے اور ممکنہ فوجی استعمال کیلئے سپریٹلی جزائر پر رن وے کی تعمیرات میں مصروف عمل ہے؛ اوباما نے حال ہی میں ان دوبارہ قبضوں کیخلاف اس ملک کوخبردار کیا تھا۔ چین کیلئے گوادر خدا کی طرف سے بھیجا گیا ایک تحفہ ہے چونکہ یہاں فقط سرمایہ کاری کے عوض اسے سب کچھ مل رہا ہے۔ جی ہاں، 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض منافع حاصل کرنے کیلئے۔ یہ کوئی ذہن کو چکرا دینی والی رقم نہیں ہے کیونکہ 2008ء میں صرف ایکسون تیل کمپنی کا منافع 46 ارب ڈالر تھا۔
آسان تجارتی راستوں اور توانائی کی ضروریات کیلئے قابل رسائی گلیاروں (کوریڈورز/ راہداریوں) کے علاوہ چین کو ان اہم تنصیبات اور راستوں کی حفاظت کیلئے اڈوں کی ضرورت ہے، اور یہ اس ذمہ داری کیلئے دوسروں کے کاندھوں پر اعتماد نہیں کرے گا۔ گوادر چین کیلئے ایک اتنا ہی اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل مقام ہے اور اس بات سے اسے کوئی نہیں فرق پڑتا کہ کتنا بلوچ خون بہے یا بلوچ مصائب کی شدت کتنی ہو۔ یہاں پر ایک آمادہ اتحادی پانے کے بعد یہ یقینی طور پر فقط بے غرضانہ ایثار کی بناء پر اس طرح کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ چین صرف بڑے سے بڑا ممکنہ منافع کمانے پر تلا ہوا ہے اور اس نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) ترک کردے گا اگر اسکے سولر منصوبے کیلئے نرخوں کی شرح میں کٹوتی کی گئی۔
گوادر ایئرپورٹ کو طویل عرصے سے فوجی اور فضائی اڈے کے ایک مقام کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اگر معاملہ یہ نہ ہوتا تو پھر معمول کے طریقہ کار کو کیونکر نظرانداز کیا جاتا جب گوادر کے نئے ایئرپورٹ کیلئے 6,600 ایکڑ زمین خریدی جا رہی تھی؟ یہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے بجائے کوئٹہ میں ملٹری اسٹیٹس آفیسر (ایم ای او) تھا کہ جس نے یہ زمین 1.05 ارب روپے میں خریدی تھی۔ کوئی بھی زمین جو ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹ (ایم ایل سی) کی طرف سے حاصل کی گئی ہو اسے پاکستان آرمی کی ملکیت بنا دیتی ہے اور صرف یہی حقیقت اس دعوے کو مکمل طور پر بے نقاب کردیتی ہے کہ گوادر خصوصی طور پر ایک تجارتی منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ 26 جنوری 2007ء کو سینیٹ میں بحث کے دوران سینیٹر رضا ربانی، شاید اسوقت وہ ایک پیامبرِ امن تھے، نے کہا تھا کہ گوادر میں ہوائی اڈہ ایک ”سول ملٹری“ ہوائی اڈہ ہے اور اسی لئے ایم ایل سی نے ہزاروں ایکڑ زمین حاصل کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں سینیٹر ڈاکٹر عبدالمالک (بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ) نے بھی ایوان کو بتایا تھا کہ حکومت نے ایم ایل سی کے ذریعے گوادر ہوائی اڈے کیلئے 150,000 ایکڑ زمین خریدی تھی اور تمام لوگوں کو انکے معاوضے کی ادا ئیگی بھی نہیں کی گئی ہے۔ وہاں پر ادا کی گئی قیمت پر بھی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی: پاکستان ریلوے نے فی ایکڑ 55,000 روپے ادا کیے تھے جبکہ ایم ایل سی نے فی ایکڑ 157,000 روپے ادا کیے۔
اٹلانٹا کا ہارٹسفیلڈ جیکسن ہوائی اڈہ 1998ء سے دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ رہا ہے اور 2014ء میں 96,178,899 مسافروں کے گزر کیساتھ یہ دنیا میں کسی بھی دوسرے ہوائی اڈے کی نسبت زیادہ مسافر اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ 2014ء میں اس نے 881,933 ہوائی جہازوں کیساتھ سب سے زیادہ نقل و حرکت (اڑان بھرنے اور اترنے) کا بھی انتظام کیا تھا اور یہ صرف 4,700 ایکڑ پر تعمیر گئی ہے۔ گوادر ایئرپورٹ لندن کے ہیتھرو (2,965 ایکڑ) سے دوگنے سائز کا ہے جہاں مصروف ترین اوقات میں ہر 46 سینکڈ میں ایک جہاز اڑتا یا اترتا ہے اور 2014ء میں اس نے 73,408,442 مسافر اور 472,817 جہاز سنبھالے تھے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی جگہ کی ضرورت دیگر مقاصد کیلئے ہے جن کی تشہیر نہیں کی گئی ہے۔ چین کو ایک اڈے کی ضرورت ہے اور اسے اسکی فوراً ضرورت ہے؛ اسے سپر پاور بلاک پر نیا بُزغالہ بننے کیلئے امریکی اڈوں کیساتھ مسابقت کی خاطر اپنی ایک واضح نشانی قائم کرنی ہے اور پاکستانی حکومت نے اس مقصد کیلئے 26 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
گوادر کی عسکریت کاری اور گوادر کے باشندوں کیلئے ریزیڈینس کارڈ جیسے رنگبھیدی اقدامات کا نفاذ کوئی بے ترتیب عمل نہیں ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے کہ بلوچ کو انکے حقوق سے ہر طرح سے مکمل طور پر محروم کیا جائے اور انہیں ایک کونے میں دھکیل دیا جائے جہاں سے وہ خود کو اس قابل نہ سمجھیں کہ وہ اس ہتک آمیز برتاو اور نا انصافیوں کیخلاف مزاحمت کرسکیں جنکا ڈھیر ان پر گرایا جارہا ہے۔ یہ وحشیانہ اور غیر انسانی پالیسی صرف ان کی اقتصادی اور اسٹراٹیجک ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش سے منسوب نہیں ہے بلکہ یہ اس گہرے بغض پر مبنی ہے جسکا مقصد پاکستانی اسٹابلشمنٹ کے بلوچستان کے وسائل کا استحصال کرنے اور اس کی 347,190 مربع کلومیٹر زمین کے استعمال کے مقاصد کیخلاف بلوچ کی مزاحمت کیلئے ان کو سزا دینا ہے جس سے بلوچ تو محروم ہوں گے لیکن انکے چنیدہ لوگ اس سے فائدے اٹھائیں گے جیساکہ قدرتی گیس، تانبے، سونے اور سلیمانی پتھر کے ساتھ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیوں (ڈبلیو جی ای آئی ڈی) نے ستمبر 2013ء میں پاکستان کا دورہ کیا لیکن اس سے نہایت کم تعاون کیا گیا۔ اس گروہ نے حال ہی میں سری لنکا کا دورہ بھی کیا تھا اور اس دورے کے دوران جزیرے کے شمال مشرق میں قائم ایک بہت بڑے سابق غیر قانونی قید خانے کا معائنہ کیا اور سری لنکا پر زور دیا کہ وہ مشتبہ خفیہ حراستی مراکز کی تحقیقات میں تیزی لائے۔ سی پی ای سی پر دستخط کرنے کے بعد لاپتہ افراد کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کو یہاں کے خفیہ قید خانوں کی بھی تحقیقات کرنی چاہئے جو کہ بلیک ہول ہیں جن میں ہزاروں بلوچ غائب ہو چکے ہیں۔ جس سزا سے استثنیٰ کیساتھ اور جتنے بڑے پیمانے پر بلوچستان میں گمشدگیاں جاری ہے یہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں اور اقوام متحدہ کے اس ادارے کو ان بلیک ہولز کو دیکھنے کی بلا روک رسائی کی اجازت ہونی چاہئے تاکہ وہ خود لاپتہ بلوچوں کی حالت زار دیکھ سکیں۔
اس انتقامی جبر اور بلوچ حقوق کی منظم سلبی کی مدد اور حوصلہ افزائی بلوچ کے درمیان موجود نا اتفاقی سے بھی ہو رہی ہے۔ درختوں اور کلہاڑی کی تمثیل یہاں مناسب لگتی ہے۔ درختوں نے شکایت کی کہ کلہاڑی ان کیخلاف مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے اور کلہاڑی کی طرف سے کی جانیوالی زیادتیوں کو روکنے کیلئے کچھ کیا جانا چاہئے۔ انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ جو کلہاڑی کا دستہ بننے سے انکار کریں تو کلہاڑی کافی حد تک بے ضرر ہو جائے گی۔ بلوچ کے درمیان ہر سطح پر موجود کُڑھتی ہوئی اور مہلک نا اتفاقی یقینی طور پر کسی بھی طرح سے بلوچ کیلئے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے بلکہ اسکے برعکس اسٹابلشمنٹ کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ موخر الذکر کو اس بات کا ادراک ہے کہ یہ تباہ کن اور نقصان دہ نااتفاقی تمام بلوچوں کو کس قدر کمزور کرسکتی ہے اور مزید سخت اور ظالمانہ اقدامات کی طرف اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، انہیں اس حد تک کمزور کرنے کیلئے کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ بلوچ کو خطرات سے نکالنے اور انکے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری یکساں طور پر انکے کندھوں پر عائد ہے جو رہنماء ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اتحاد کے بغیر یہ خطرہ موجود ہے کہ بلوچ حقوق کی جدوجہد ایک بھولا ہوا باب بن جائے گا۔
مصنف 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے بلوچ حقوق کی تحریک سے وابستہ ہیں
وہ @mmatalpur پر ٹویٹس کرتے ہیں
اور mmatalpur@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے
بشکریہ : ڈیلی ٹائمز، اتوار، 22 نومبر 2015