معزز صحافیو !پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ اداروں کی اسطرح کی ظالمانہ کارروائیاں بلوچستان کے عوام کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن بلوچستان اس وقت جس انتہائی انسانی بحران کا شکار ہے، اُس پر اگر دنیا کی نظر نہیں پڑ رہی مگر یہ سب آپ کی نظروں سے ہرگز اوجھل نہیں۔
بلوچ قوم کو گذشتہ کئی سالوں سے ریاست پاکستان کی طرف سے نسل کشی کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ، کسی بھی شخص کو اُٹھاکر غائب کردیتے ہیں یا موقع پر مارکر شہید کردیتے ہیں۔ دوسری طرف ریاستی سرپرستی میں مذہبی شدت پسندوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے ہر اس باشعور بلوچ کو قتل کردیتے ہیں جو اپنے وطن پر موجود انسانی المیہ پر خاموش نہیں رہتا۔ ریاستی اداروں نے ہزاروں بلوچوں کو اغواء کرکے تاحال لاپتہ رکھا ہے، ہزاروں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، اجتماعی قبروں میں سینکڑوں کی تعداد میں ناقابل شناخت لاشیں ملی ہیں جن میں ان افراد کی لاشیں شامل تھیں جن کو ریاستی فورسز نے دن دہاڑے سب لوگوں کے سامنے سے اٹھا لیا تھا۔
بلوچستان پر چونکہ پاکستان نے جبری طور پر قبضہ کیا ہے تو بلوچ قوم کی طرف سے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ یقیناًایک جائز اور قانونی مطالبہ ہے اور ایک سیاسی نظریہ اور اس سے وابستگی کا اظہار ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ بلوچستان پر قبضہ ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ بلوچ قوم کیساتھ ریاست پاکستان کا یہ بے رحم رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اور بلوچ کے درمیان جو رشتہ ہے، وہ غلام اور قابض کا ہے۔ ریاست کی طرف سے بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی محض اسلئے ہے کہ ریاست پاکستان بلوچستان کو اپنی کالونی سمجھتا ہے، جو کہ حقیقی طور پر کالونی ہی ہے۔ چین اور پاکستان کے تجارتی مفادات کی بنیاد پر بلوچ وطن سے منسلک استحصالی منصوبوں سے اختلاف رکھنے والی ہر آواز کو طاقت کے زور پر خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے روٹ پر پڑنے والے گاؤں اور دیہات مسلسل جلائے جارہے ہیں۔ لوگوں کو ان علاقوں سے جبری طور پر نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اور اس تمام استحصال کے خلاف اٹھنے والے ہر سیاسی جمہوری آواز کو دبایا جارہا ہے۔بلوچستان کے کٹھ پُتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جس بہادری کیساتھ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کو ایک عظیم کامیابی سے تعبیر کیا ہے، اس سے آپکو اندازہ ہوجانا چاہئے کہ بلوچستان میں سیاسی و سماجی حالات کس حد تک سنگین ہوچکے ہیں۔ سرفراز بگٹی جس بہادری کیساتھ ڈاکٹر منان اور دوسرے ساتھیوں کو ایک مقابلے میں شہید کرنے کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں، اسکی اصلیت ان تصاویر میں عیاں ہے جو ان رہنماؤں کے شہادت کے فوری بعد لی گئی ہیں۔ جہان پر گھر کے بکھرے سامان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اگر سرفراز بگٹی کو اسطرح کے کسی ڈھونگ کا شوق ہی تھا تو وہ لاشوں کے ہاتھوں میں کوئی بندوق ہی تھما دیتے۔
پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی بلوچستان میں جس بے رحمی سے سیاسی کارکنوں کو قتل کررہی ہے، اسکی مثال شاید اس دور میں کہیں نہ مل سکے۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان میں موجود صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچستان کا دورہ کرکے صحیح حالات بیان کرنے سے کترا رہی ہیں۔ اور اسکی وجہ سے پاکستانی فوج روز بروز زیادہ بے رحمی اور دیدہ دلیری کیساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
بی این ایم اس پریس کانفرنس کی توسط سے انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا گروپس، دانشوروں، صحافیوں سے گذارش کرتی ہے کہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچ عوام کی نسل کشی کو آشکار کریں۔