تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
نوآبادکار جانتے ہیں کہ ڈومپاس بذات خود تسلی بخش انداز میں آبادی کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اسی لئے وہاں پر دیگر تکمیلی میکانزم اور انتظامات ہونے چاہیئیں تاکہ اس مکمل کنٹرول کو یقینی بنا سکیں جسکے وہ آرزومند ہیں
جنوبی افریقہ میں نوآبادکاروں کو پتہ تھا کہ انہیں مخالفت کی تمام شکلوں کو کنٹرول کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق آبادیاتی خصوصیات کی تبدیلی کو منظم کریں اور اسکی نگرانی کریں۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک پاس متعارف کروایا جسے افریکانز (زبان) میں سیاہ فاموں، وہ لوگ جو اس غیرانسانی اور توہین آمیز ہتھکنڈے سے متاثر تھے، انہیں کنٹرول کرنے کیلئے جو اس زمین کی حقیقی مالکان تھے، کی طرف سے ’ڈومپاس‘ (ڈمب پاس) کہا جانے لگا جسکا مطلب ’احمق پاس‘ ہے۔ پاکستان نے بلوچ عوام کیلئے اپنے ڈومپاس کا نسخہ نکالا ہے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں اسے کھلی چھوٹ حاصل ہو۔ انہوں نے اسکی ابتداء گوادر سے کی ہے لیکن یہ پورے بلوچستان میں پھیل جائیگی کیونکہ وہ گوادر سے کاشغر تک اُڑ کر نہیں جا سکتے اور انہیں نقل و حمل کیلئے زمین استعمال کرنی پڑے گی جس سے راستوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ ان کے کٹھ پتلی ڈاکٹر عبدالمالک نے پہلے ہی سے تشویش کا اظہار کردیا ہے: ”گوادر کاشغر شاہراہ کی تعمیر پر جب بھی کچھ پیش رفت ہوتی ہے تو دشمن عناصر امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔“ انکی نیت پورے بلوچ عوام کیلئے ڈومپاس کے نظام کیلئے بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ایک سیکورٹی اقدام ہوگا لیکن بعد میں آخرکار بلوچستان میں نسلی امتیاز پر مبنی رنگبھیدی نظام قائم کر دے گا۔