گمنام ہیرو


VBMP LongMarch

تحریر: میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ : لطیف بلیدی

Mir Muhammad Ali Talpurوائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا تاریخی لانگ مارچ یکم مارچ کو ختم ہو گیا جب اسکے بہادر اور بے لوث شرکاء 106 دنوں کے مارچ کے بعد اسلام آباد پہنچے۔ اس عظیم الشان کوشش نے بلوچوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور کئی سیاسی تنظیموں اور افراد کو متحرک کیا۔ اس لانگ مارچ کا ایک اہم پہلو جسے سول سوسائٹی، مرکزی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حتیٰ کہ بائیں بازو کی قوتوں، پنجاب میں چند کے علاوہ، نے بھی بڑی حد تک نظر انداز کیا، وہ تھی پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی دل و جان سے شرکت؛ اس مارچ کے پنجاب داخل ہونے کے بعد انہوں نے اپناوقت اور اپنی توانائیاں اس کیلئے وقف کردی تھیں۔

The unsung heroes

اس تاریخی لانگ مارچ میں شرکت کیلئے بلوچ طالبعلموں کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ مارچ کے شرکاء جب پنجاب میں داخل ہوئے تو انکے امتحانات ہورہے تھے اور انہیں امتحانات دینے یا مارچ میں شرکت کرنے میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ انہوں نے مارچ میں شرکت کا انتخاب کیا اور ان میں سے کئی کے پرچے ضائع ہوگئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ انکی ترجیح بلوچ قوم ہے ان کے کیریئر نہیں۔ وہ جو وظائف پر تعلیم حاصل کررہے تھے انہیں اپنے وظائف کی منسوخی کے خطرے کا سامنا تھا اور ان میں سے بیشتر کو مارچ میں شرکت کیلئے سزا ملنے کا خطرہ درپیش تھا۔

اس میں شرکت کسی بھی طرح سے آسان نہ تھی؛ وہ ہر صبح وین اور کوچز کے ذریعے اپنے ہوسٹل سے آتے اور اس جگہ پر جمع ہوتے جہاں سے مارچ کے شرکاء نے گزشتہ شام مارچ روکا تھا اور وہ وہاں پر وی بی ایم پی کی ٹیم کے پہنچنے کا انتظار کرتے اور جب وہ وہاں پہنچ جاتے تو وہ اس ریڑھی پر تصاویر کو لگانے میں مدد کرتے جسے شرکاء مارچ کرتے ہوئے دھکیلتے اور جب مارچ شروع ہوجاتا تو وہ اس گروہ کے گرد ایک حفاظتی گھیرا بنا دیتے، اس تلخ تجربے کے بعد جب رینالہ خورد میں ایک ٹرک نے مارچ کے شرکاء کو کچلنے کی کوشش کی اور سرائے عالمگیر میں پیش آنے والے بداخلاقی کے واقعات جہاں چند افراد آئے اور مارچ کے شرکاء کیخلاف غلیظ زبان استعمال کی۔ اپنے محدود وسائل پر اس روزانہ کے آنے جانے نے یقینی طور پر ان پر ایک بہت بڑا بوجھ ڈال دیا تھا لیکن یہ چیز انہیں روک نہ سکی اور وہ باقاعدگی سے آتے رہے۔ اگرچہ یہ مارچ اتنا چلنے اور بہادر خواتین کی طرف سے نعروں کیساتھ بذات خود توانائی اور سرگرمی کی ایک علامت تھی؛ ان نعروں اور سرگرمی کیساتھ ان نوجوان طلباء کی موجودگی نے مارچ کے شرکاء میں شگفتگی اور توانائی کا ایک احساس پیدا کیا۔

یہ بہادر نوجوان نہ صرف مارچ میں شامل ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے طور پر لانگ مارچ کے مقاصد کو اجاگر کرنے کیلئے ہزاروں، درحقیقت 20000، پمفلٹ چھپوائے اور راستے میں کھڑے افراد اور گزرتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان تقسیم کیے تاکہ لوگ مارچ کرنے والوں کے مطالبات سے آگاہ ہوں۔ پرنٹنگ کیلئے رقم درکار تھی اور تقسیم کرنے کیلئے اضافی تگ و دو کی، یعنی کہ لوگوں کے پاس جانا اور انہیں پمفلٹ تھمانا۔ لیکن صرف یہی اخراجات نہیں تھے جنکا بوجھ انہیں اٹھانا پڑا؛ روزانہ سفری اخراجات اور دن کے وقت کھانا اور چائے بھی ان کے محدود وسائل پر بہت بڑا بوجھ تھا۔

یہ اور بات ہے کہ ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) شہزاد چوہدھری نے یکم مارچ کو کیپٹل ٹی وی کے پروگرام میں صریحاً جھوٹ بولا جب انہوں نے کہا کہ ماما عبدالقدیر، وی بی ایم پی لانگ مارچ کے رہنما، کے پاس ایک تھرایا سیٹلائٹ فون ہے اور انہیں بالکل تعجب نہیں ہو گا کہ اگر وہاں پر انکے ساتھ تین تین یا چار چار لینڈ کروزر موجود ہوں۔ ریکارڈ کی درستگی کیلئے کہنا چاہوں گا کہ ماما کے پاس نوکیا کا ایک سستا فون تھا اور صرف ایک ہی گاڑی جو لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی وہ ایدھی فاونڈیشن کی طرف سے فراہم کردہ ایمبولینس تھی۔ ٹی وی ون کے چینل پر ایک ٹکر چلایا گیا کہ مارچ کرنے والوں کو روزانہ بیس لاکھ روپے دیے جارہے ہیں اور ان کیلئے کھانا فائیو اسٹار ہوٹل سے آرہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مارچ کے شرکاء وہی کھانا کھاتے جو راستے کی ہوٹلوں سے دستیاب ہوتا اور دو مرتبہ ہوٹل مالکان نے کھانے یا چائے کے پیسے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ مارچ کے مرکزی گروہ کی تعداد 20 تھی جنہیں رات گزارنے کیلئے مختلف اشخاص جگہ دیتے جو انکے حامیوں کے دوست تھے اور جو کچھ بھی وہ انتظام کر سکتے تھے وہی کچھ رات کے کھانے اور ناشتے میں فراہم کرتے۔ ان اشخاص کو مارچ کے شرکاء کی میزبانی کرنے کی پاداش میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف ہراساں کرنے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلم وڑائچ، جو کہ ایک کلاکار اور سیاسی کارکن ہیں، نے چھ راتوں تک وزیرآباد میں اپنی رہائش گاہ پر ان کے میزبان کا کردار ادا کیا۔ نام نہاد باخبر تجزیہ کاروں اور بعض ٹی وی چینلوں نے انتہائی بے شرمی سے اس مارچ کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹ بولا کیونکہ یہ مارچ اس جنگ کو اسٹابلشمنٹ کے مرکزی خطے میں لے گئی تھی۔

بلوچ طلباء کی اکثریت نے اپنے چہرے سرجیکل ماسک یا رومال کیساتھ ڈھانپ رکھے تھے تاکہ وہ پہچانے نہ جاسکیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کینہ پرور اور جوابدہی سے مستثنیٰ انٹیلی جنس ایجنسیاں یقینی طور پر انہیں اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنائیں گی۔ یہ بات مزید واضح ہوگئی جب راولپنڈی کے قریب چند انٹیلی جنس اہلکاروں نے ان طلباء کو واضح الفاظ میں بتایا کہ وہ جتنا چاہیں ماسک کے پیچھے اپنے چہرے چھپائیں مگر وہ پہچانے جاچکے ہیں اور مارچ میں شامل ہونے اور اسٹابلشمنٹ کی نافرمانی کی جرات کرنے کیلئے انہیں جلد از جلد ٹھیک کیا جائیگا۔ اس کا کریڈٹ ان بہادر لڑکوں کو جاتا ہے جو دھمکیوں اور خطرات سے نہ مرعوب ہوئے اور نہ ہی پیچھے ہٹے بلکہ اور زیادہ جوانمردی کیساتھ اس میں حصہ لینا جاری رکھا۔

یہ دھمکیاں 8 مارچ کو ہفتے کے روز صحیح ثابت ہوئیں جب تقریباً ڈھائی بجے تین بلوچ طلباء مہران، محمد خالد اور فرخ پریسٹن یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں دوپہر کا کھانا کھانے والے تھے تب 8 یا 9 لڑکوں کا ایک گروہ وہاں آیا اور ان سے کہا کہ وہ بلوچی میں کیوں بات کررہے ہیں اور وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کے سوال پر فرخ نے کہا کہ آپ ہمیں ہماری اپنی ہی زبان بولنے سے کس طرح منع کر سکتے ہیں، کیا آپ یہاں کے حکمران ہیں؟ وہ لوگ اچانک برنجی پنجوں، بوتلوں، کرسیوں وغیرہ کیساتھ ان لڑکوں پر ٹوٹ پڑے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود وہ ان سے لڑے اور کسی نے مداخلت نہیں کی۔ تینوں زخمی ہوگئے۔ خالد کے سر کے زخموں کو 18 ٹانکوں کی ضرورت پڑی۔ پولیس نے عذر لنگ پیش کرتے ہوئے اسکی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔ پیر کے روز انہوں نے انتظامیہ کیساتھ ایک میٹنگ کی تھی جس میں انہیں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن یہ ابھی دیکھنا باقی ہے کہ ان مجرموں کیخلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے جنکے حوالے سے یہ قوی امکان موجود ہے کہ انہیں کچھ نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ کالج کا کوئی اتفاقی جھگڑا نہیں تھا بلکہ بلوچ طلباء کو لانگ مارچ کیلئے انکی مخلصانہ حمایت اور اسٹابلشمنٹ کی نافرمانی کرنے کیلئے سزا دینے کی ایک منظم کوشش تھی۔ بلوچ کو سزا دینے کیلئے ایجنسیوں نے غنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک تیر سے دو شکار کیے؛ انہیں وہی ملا جو وہ چاہتے تھے اور الزام سے بھی بری الذمہ رہے۔

بلوچستان میں جاری مظالم، لاپتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مغوی افراد کی لاشیں پھینکنے کی پالیسی کو اجتماعی قبروں میں دفنانے میں تبدیل کرنا انسانیت کیخلاف سنگین جرائم ہیں لیکن قصورواروں کو سزا سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ اب اس جارحیت کے دائرہ کار کو پنجاب میں زیر تعلیم بلوچوں تک وسعت دی گئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ پریسٹن یونیورسٹی کا واقعہ آخری نہ ہو چونکہ اسٹابلشمنٹ ان لوگوں سے بدلہ لینا چاہتی ہے جنہوں نے لانگ مارچ میں شرکت کی تھی یا اسکی حمایت کی تھی کیونکہ اس لانگ مارچ نے اسٹابلشمنٹ کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔

میں خوش قسمت تھا کہ 22 فروری کو جہلم کے قریب مارچ میں شامل ہونے کے بعد مجھے ان بہادر اور جذبے سے سرشار بلوچ طلبا، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے ارکان، پاکستان یوتھ الائنس (پی وائی اے) کے ارکان کیساتھ گھل ملنے کا موقع ملا اور جب ہم اسلام آباد پہنچے تو بلوچ طلباء اور دیگر دوستوں کی جانب سے دو راتوں تک بڑی خاطر تواضع کیساتھ میری میزبانی کی گئی۔ یہ میرے لئے ایک مسرت اور اعزاز کی بات تھی کہ میں نے بلوچستان کے مستقبل کیساتھ وقت گزارا۔ ان بہادر نوجوانوں نے اپنے کیریئر اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں ایک ایسی چیز کیلئے جو انہیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ بڑے دل والے لڑکے، بشمول ان تمام لوگوں کے جنہوں نے لانگ مارچ کی حمایت کی، اس عظیم تاریخی لانگ مارچ کے عظیم گمنام ہیرو ہیں اور ہماری غیرمشروط محبت اور احترام کے مستحق ہیں۔

بشکریہ: ویو پوائنٹ آن لائن ڈاٹ نیٹ

تاریخ اشاعت : جمعرات، 13 مارچ 2014

Leave a comment

Filed under Mir Mohammad Ali Talpur

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s