بیور چیف سنگر کی رپورٹ کے مطابق گوادر ریذیڈنس کارڈ کا نام اصل میں گوادر آئی کارڈ ہے جو بالکل یو اے ای کی امارات آئی ڈی کارڈ کی طرح ہے۔ جس میں ایک سم کے ساتھ کارڈ ہولڈر کی فنگر پرنٹس،آئی اسکین سمیت پوری ڈیٹا موجود ہو گی اور اطلاعات کے مطابق گوادر میں پاکستانی فوج کی خصوصی کمانڈو جو سیکورٹی سنبھالیں گے ہر چوکی و اندرونی گزرگاہ کے ساتھ گوادر کے داخلی و خارجی راستوں و سمندری راستوں پر مخصوص کمپوٹرائز سسٹم نصب ہونے کے ساتھ پاکستانی سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں میں بھی جدید حالات موجود ہوں گے جو ہمہ وقت اس کارڈ کے مخصوص نمبر سے اسکے جعلی و اصلی ہونے کی شناخت کر سکیں گے۔
بیورو چےٖف کے مطابق کٹھ پتلی مالک حکومت کے ایک مقامی ذمہ دار نے کہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اگر یہ اقتصادی زون کامیاب ہوا تو گوادر کے مقامی باشندوں کے علاوہ مقبوضہ بلوچستان کے دیگر بلوچ گوادر میں داخلے کے لیے داخلی چیک پوسٹوں پر ایک فارم فل کریں گے جن میں انکی بائیوڈیٹا سمیت آئی اسکین اور فنگر فرنٹ ہوں گے، اور ایک مخصوص ٹیکس انکو ادا کرنی پڑئے گی،اس کا مطلب کے مقبوضہ بلوچستان کے دیگر باسیوں کے لیے یہ ایک طرح سے ویزہ سروس والی کہانی ہو گی۔جس پر پاکستانی فوج کی سربراہی میں کام شروع ہو چکاہے،جو بلوچ کوآنے والے وقتوں میں ساحل و اسکے وسائل سے دور رکھ کر جلد یہاں پر پاکستانی فوج کی پنجاب و پاکستان کے دیگر کھونوں سے آبادکاروں کو بسانے کی گہرئی سازش ہے جس سے بلوچ مکمل اقلیت میں بدل جائیں گے،بیورو چیف کے مطابق اس سلسلے کو گوادر سے شروع کرکے بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں پسنی ،اورماڑہ اور گڈانی تک وسعت دی جائے گی بلکہ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ گوادر ڈسٹرکٹ کو پاکستان مقبوضہ بلوچستان سے آنے والے وقتوں میں الگ کر کے ایک ملٹری کنٹومنٹ یا کوئی اور ڈویژن کا اعلان بھی کر سکتی ہے۔