پاکستان کے ’غیر مرئی‘ شخص کا تنہا دھرنا


تحریر: بے نظیر شاہ
ترجمہ : لطیف بلیدی

بہت سے دیگر لوگوں کی طرح ماما قدیر کا بیٹا بھی غائب ہوا اور پھر مردہ پایا گیا۔ کئی سالوں بعد بھی وہ یہ جاننے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں کہ کیوں۔

 پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں بہت سے لوگ لاپتہ ہو ئے ہیں [شکیل عادل / اے پی]

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں بہت سے لوگ لاپتہ ہو ئے ہیں [شکیل عادل / اے پی]

کوئٹہ، پاکستان:- چند لوگ ہی قدیر ریکی سے بات کرنا چاہتے ہونگے، اور اس سے بھی کم انکے بارے میں بات کرنا چاہتے ہونگے۔

ہوسکتا ہے اس 75 سالہ شخص کو لوگ عقیدتاً پیار سے ”ماما قدیر“ کے نام سے پکارتے ہیں، اردو زبان میں اس کے معنی ”چچا“ کے ہیں، لیکن بہت سوں کا ماننا ہے ان سے زیادہ قربت خطرناک ہے۔ماما قدیر کئی سالوں سے ایک ایسی چیز پر احتجاج کررہے جس پر حکام کا دعویٰ ہے کہ اسکا کوئی وجود نہیں ہے، یعنی ان افراد کی گمشدگی جو شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پاکستانی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں جہاں سیکورٹی فورسز 2005 کے بعد سے ایک مسلح علیحدگی پسند تحریک کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ماما قدیر اپنے بیٹے کو اس ممنوع تنازعے کی ہلاکتوں میں شمار کرتے ہیں۔

The lonely vigil of Pakistan’s ‘invisible man’

بینک کے یہ سابق ملازم ہر صبح آٹھ بجے اپنی روزانہ نو گھنٹے کے دھرنے کیلئے مقامی پریس کلب کے باہر اپنے احتجاجی کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ دن دیگر مظاہرین، جو وہاں آکر ان کیساتھ شامل ہوجاتے ہیں، کیساتھ بات چیت کرکے بہ آسانی گزر جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ایام ان کے عارضی خیمے میں لاپتہ افراد کی تصاویر کی بڑی قطار کے پیچھے اکیلے خاموشی میں گزرتے ہیں۔شام پانچ بجے قدیر اپنے ارد گرد جمع تصاویر اکھٹا کرتے ہیں اور پریس کلب کے اسٹور میں رکھ دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ جب وہ گھر پہنچتے ہیں تو مرغی کیساتھ تھوڑے سے چاول کی ایک چھوٹی سی پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں، وہ ہر دن صرف اتنا ہی کھانا کھاتے ہیں۔

شاید آنے والا کل بہتر ہوگا، وہ خود کو تسلی دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل وہ ان نامہ نگاروں کو زیادہ نظر آئیں گے جو سڑک کے اس پار ٹہلتے ہوئے ایک فوری سگریٹ پر کہانیوں کے حوالے سے تبادلہ خیالا ت کررہے ہوتے ہیں۔

قدیر کا کہنا ہے کہ، ”الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی میرے کیمپ کے قریب سے گزرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ کیمرامین مجھ سے نظریں نہیں ملاتے۔ جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو معمول کیمطابق میں پریس ریلیز کیساتھ ان کے دفتر جاتا ہوں لیکن مجھے ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا ہے: ’ماما، ہمیں ایک خاندان کو کھلانا ہے۔ براہ مہربانی اصرار نہ کریں۔‘ میں سمجھتا ہوں۔ میں انہیں دوش نہیں دیتا۔“

قدیر نے گزشتہ چھ سالوں سے پاکستان کے سب سے بڑے مگر کم ترقی یافتہ صوبے میں لاپتہ ہو ئے افراد کے بارے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔

خاموش کیے گئے لوگ

سن 1948ء کے بعد سے بلوچستان پانچ مسلح بغاوتوں سے گزرا ہے۔ باغی گروہ زیادہ سے زیادہ خود مختاری، صوبے سے نکلنے والے قدرتی وسائل میں سے ایک بڑا حصہ اور مکمل آزادی کے حصول کیلئے پاکستانی فوج کیخلاف برسرپیکار ہیں۔

لیکن قدیر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں چاہتا۔ انکے ساتھ شامل مرد، خواتین اور بچوں کی ترجیح صرف ایک ہی ہے: اپنے ان رشتہ داروں کو ڈھونڈ نکالنا جنہیں مبینہ طور پر ”شک“ کی بنیاد پر انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے چھینا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ نیم فوجی دستے ریاست مخالف سرگرمیوں کو ختم اور اختلاف رائے کو خاموش کرنے کیلئے جبری گمشدگیوں، خفیہ گرفتاریوں اور مار و اور پھینک دو کی پالیسی کا استعمال کررہے ہیں۔ پاکستانی حکومت ان اموات یا لاپتہ افراد کیلئے ذمہ دار ہونے کی تردید کرتی ہے اور اس نے گمشدگیوں کے حوالے سے اطلاعات کی تحقیقات کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے۔

افراد کی تعداد کا صحیح تعین مشکل ہے۔ لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں، سینکڑوں یا اس سے بھی کم ہو سکتی ہے، یہ بات اس پر منحصر ہے کہ آپ کس سے پوچھ رہے ہیں۔

قدیر کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق تقریبا 35,000 مرد اور 160 خواتین لاپتہ ہیں جبکہ صوبے میں 8,000 کٹی پھٹی مسخ شدہ لاشیں برامد ہوئی ہیں۔

آزاد ادارے پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے غائب افراد کی تعداد 955 رکھی ہے جبکہ بلوچستان کے ہوم سیکرٹری نے سینیٹ کو مئی 2015ء تک کے سرکاری تعداد 156 بتائی ہے۔

تین بچوں کے باپ قدیر، سرکاری تعداد پر سیخ پا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم کے اعداد و شمارسب سے زیادہ درست ہیں جو تنظیم کے علاقائی رابطہ کاروں کے ذریعے جمع کیے جاتے ہیں۔

اسے 2009ء میں قدیر کے 32 سالہ بیٹے اور قوم پرست بلوچ ریپبلکن پارٹی کے انفارمیشن سیکرٹری جلیل احمد ریکی کے اغواء کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ ریکی کی لاش جسم پر گولیوں اور سگریٹ سے جلے نشانات کیساتھ دو سال بعد ملی۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ تسلیم کیا تھا کہ ریکی کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔ رئیسانی، جنہیں 2013ء میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا اور اب انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے، نے تبصرے کیلئے الجزیرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

دریں اثناء قدیر نے تین بڑے شہروں میں سڑک کنارے قائم دھرنوں کا اہتمام کیا۔ 2013ء میں، انہوں نے 20 مظاہرین، جن میں سے زیادہ تر خواتین تھیں، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد کا 3,000 کلومیٹر طویل پیدل لانگ مارچ کیا، محض بہت کم میڈیا کوریج اور خالی وعدوں کیساتھ گھر واپس لوٹنے کیلئے۔

قدیر کہتے ہیں کہ کراچی میں انکے قیام کے دوران پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ان کے رشتہ داروں کو جلد مبینہ الزامات کا سامنا کرنے کیلئے عدالت میں پیش کیے جانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ آصف نے کبھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔

اسکے جواب میں آصف نے الجزیرہ کو بتایا کہ قدیر نے اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے کے موقع سے انکار کیا تھا، اگرچہ ماما قدیر کا اصرار تھا کہ ایسا اسلئے ہوا کہ انہیں ان کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔

لیکن وہ ان سے بہتر دن تھے۔ اور پھر قدیر میں ان کو نظر انداز کرنے پر ایک ہلکا سا چڑچڑا پن تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ان سے جان بوجھ کر منہ چھپایا جا رہا ہے۔

مارچ میں حکومت نے ان پر سفری پابندی عائد کی جب وہ انسانی حقوق کی ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے نیو یارک کی ایک پرواز پر سوار ہونے جارہے تھے۔ عدالت میں درخواست کے بعد ستمبر میں یہ پابندی ہٹا دی گئی مگر ان کا کہنا ہے کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی تجدید کیلئے بھیجا گیا ان کا پاسپورٹ انہیں موصول نہیں ہوا ہے اور ان کا نام اب بھی وزارت داخلہ کے اگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔

قدیر کا کہنا ہے کہ معمول کے مطابق مقامی سیمیناروں میں، جہاں انہیں شرکت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے، کسی وضاحت کے بغیر منسوخ کر دی جاتی ہیں، اور اسطرح کی کسی بات کا نتیجہ مہلک ہوتا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی مہمکار سبین محمود کو اپریل میں کراچی میں ا ن کے کیفے میں بلوچستان پر اجلاس، جس میں قدیر اور دیگر تین نمایاں مقرر تھے، کی میزبانی کے بعد قتل کردیا گیا۔

اس واقعے نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ انہیں اس پرجوش 39 سالہ مہمکار کیساتھ اپنی آخری بات چیت من و عن یاد ہے۔

جیسے ہی مقررین واپس جانے کیلئے تیار ہو رہے تھے، قدیر کو یاد ہے کہ سبین نے ان سے کہا تھا کہ ”اکیلے مت جائیں۔ کراچی آج کل محفوظ نہیں ہے۔ آپ میرے دوستوں کو آپکے ہوٹل تک واپس پہنچانے دیں۔“

چند منٹ بعد، سبین کو ان کی گاڑی میں گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔

قدیر کا کہنا ہے کہ، ”اس رات وہ اپنی حفاظت سے زیاد ہماری حفاظت کے بارے میں فکر مند تھیں۔ ہم نے اپنا ایک دوست اور حامی کھو دیا۔“

ان کے ایک اور حلیف اور ٹی وی کے ایک ہائی پروفائل صحافی حامد میر گزشتہ سال کراچی میں مسلح افراد کی طرف سے گھات لگا کر کیے گئے حملے میں زندہ بچ گئے۔ یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ کس نے میر کو تقریباً مار ہی ڈالا تھا لیکن جولائی میں واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی زندگی کو لاحق خطرات کے سبب وہ شاذ و نادر ہی بلوچستان پر کوئی رپورٹ پیش کرتے ہیں یا حکومت کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرتے ہیں۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران انکے 40 ساتھی ہدف بناکر قتل کیے گئے ہیں۔

تاہم، حکومت اس بات پر قائم ہے کہ صوبے میں امن و امان بہتر ہو رہی ہے اور وزیر داخلہ نے ستمبر میں ایک بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس سال 500 باغیوں نے عام معافی کے تحت ہتھیار ڈالے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے خود ساختہ جلاوطن رہنماء براہمدغ بگٹی نے حکومت کیساتھ امن مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

بگٹی ایک سخت گیر شخص ہیں جنہوں نے بلوچستان کی آزادی کی وکالت کی ہے اور کسی بھی طرح کے سیاسی مذاکرات کی مخالفت کی ہے۔ 2012ء میں ان کی پارٹی پر پابندی لگائی گئی اور حکام کی طرف سے اسے اسکے مسلح ونگ بلوچ ریپبلکن آرمی کا فرنٹ تصور کیا جاتا ہے جس نے بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں کو نقصان پہنچانے والے حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔

قدیر، جو کہ شاذ و نادر ہی سیاسی ہیں، کی اس قبائلی سردار کیساتھ ایک ذاتی شکایت ہے، ان کی پارٹی کیساتھ اپنے بیٹے کے ملوث ہونے کے سبب۔

وہ کہتے ہیں کہ، ”بلوچستان براہمدغ بگٹی کا نہیں ہے جس کیلئے وہ گفت و شنید کرے۔ جب بگٹی واپس آجاتا ہے تو ہم ان سے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھیں گے جو لاپتہ ہوئے ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ان کی پارٹی کیلئے کام کرنے کی پاداش میں قتل کیے گئے جس وقت وہ سوئٹزرلینڈ میں آرام سے رہ رہے تھے۔“

اپنے مرحوم بیٹے کا ایک ایسی جماعت کیساتھ تعلق، جو تسلسل کیساتھ علیحدگی کی مانگ کرتی آرہی تھی، نے قدیر کی مہم پر ایک دور رس اثر ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر کئی لوگوں کیلئے یہ پیراں سال شخص ایک غدار ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی حب الوطنی پر کوئی شک میں نہیں ہونا چاہئے۔

قدیر بلوچ نے پریس کلب کے باہر کہا کہ، ”میں یہاں پیدا ہوا، میرے بچے یہاں پیدا ہوئے، میرے پوتے یہاں پیدا ہوئے۔ اگر میں خوش قسمت رہا تو ہو سکتا ہے کہ میں اگلے پانچ سال تک زندہ رہوں لیکن میں کہیں جانیوالا نہیں۔ میں یہیں رہوں گا۔“

بشکریہ: الجزیرہ، 15 اکتوبر 2015

Leave a comment

Filed under Write-up

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s