تحریر : میر محمد علی ٹالپر اور شیر علی خان
ترجمہ: لطیف بلیدی
یہ میر محمد علی ٹالپر کے دو حصوں پر مشتمل انٹرویو کا پہلا حصہ ہے۔
سن 1971ء کے موسم خزاں میں میر محمد علی ٹالپر نے اپنی زندگی بطور ایک طالب علم کے ترک کرنے اور بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی فہم و فراست نے انہیں متحرک کیا کہ ناانصافی اور غفلت نے بلوچ عوام کو الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے اور انہوں نے محسوس کیا یہ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ انہیں بہت کم پتہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ آخری بار ہو جب وہ اپنے گھر واپس لوٹیں اور اپنے خاندان سے ملیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بلوچ کیساتھ بلوچستان میں اور افغانستان میں جلاوطنی میں رہنے پر منتج ہوا۔
بلوچ جدوجہد کا سوال آج بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا کہ چار دہائیاں قبل تھا چونکہ ریاستی جبر اور ظلم و ستم کا سلسلہ بلاروک جاری ہے۔ اس بناء پر ٹالپر بلوچستان پر ریاستی بیانیے سے پیدا کردہ تصورات کیخلاف بات کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، اور وہ اس خطے میں جدوجہد کی بنیاد کے بارے میں بہتر تفہیم کو فروغ دینے کیلئے کام کرتے ہیں۔ 2013ء میں مجھے ایک ذاتی دستاویزی منصوبے کے حصہ کے طور پر، سرگرم عمل کارکنوں کی جدوجہد، جن کی کہانیاں شاذ و نادر ہی، اگر کبھی بتائی بھی جاتی ہوں تو، کے سلسلے میں میر محمد علی ٹالپر سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔
The Mir Mohammad Ali Talpur Story: Part I & Part II