اکّڑ ہو یا بکّڑ دونوں ایک


تحریر: میر محمد علی ٹالپر

ترجمہ: لطیف بلیدی

تحفظ کی رقم کے طور پر اضافی کمائی دراصل ’بھتہ خوری‘ کے بدصورت لفظ کیلئے محض ایک زیادہ قابل احترام نام ہے

Mir Muhammad Ali Talpurمورخہ 3 اگست کے سینیٹ اجلاس کے دوران پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے فرنٹیئر کور (ایف سی) اور ہرنائی میں کوئلے کی کانوں کے لیز مالکان کے درمیان دستخط ہونے والے ایک معاہدے اور موخر الذکر پر ایف سی کی طرف سے ٹیکس کے نفاذ کی ایک تحریک پر بحث شروع کی۔ انہوں نے ایف سی پر الزام لگایا کہ ”وہ حکومت بلوچستان کے معاملات میں بے جا مداخلت کرکے صوبائی خود مختاری میں دخل انداز ہورہی ہے“ اور انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اس معاہدے کے ”غیر قانونی“ ہونے کا اعلان تو کیا تھا لیکن ایف سی اب بھی تحفظ کی رقم کے طور پر فی ٹن کوئلے پر 220 روپے وصول کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایف سی صوبائی حکومت کی ہدایات کی نافرمانی کر رہی ہے اور ”ماورائے آئین اقدامات“ اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے ان ایف سی افسران کیخلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا جنہیں عدالتوں میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا۔ داخلہ کے وزیر مملکت بلیغ الرحمان نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے معاہدے کے بارے میں وفاقی حکومت سے کوئی باضابطہ شکایت نہیں کی ہے اور صوبائی محکمہ کانکنی کے حکام معاہدے پر دستخط کی تقریب میں موجود تھے۔

ایسا لگتا ہے کہ بلیغ الرحمن صاحب کو یا تو اس بابت بتایا نہیں گیا یا پھر وہ جان بوجھ کر احتیاط برت رہے ہیں کیونکہ 15 جنوری کو شائع ہونیوالی ایک نیوز رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بلوچستان حکومت نے صوبے کے ضلع ہرنائی میں سیکورٹی کی فراہمی کیلئے کوئلے کی کانوں کے مالکان اور ایف سی کے درمیان دستخط شدہ معاہدوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ ضلع ہرنائی میں کوئلے کی تقریباً 250 کانیں ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت تحفظ کی رقم کے طور پر کوئلے کے فی ٹن پر ایف سی کو 220 روپے کی ادا ئیگی کی جا رہی ہے۔ حکومت نے کان مالکان اور سیکورٹی فورسز کے درمیان سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے ان معاہدوں کا نوٹس لیا تھا چونکہ سیکورٹی فورسز اور کوئلے کی کانوں کے مالکان کے درمیان کیے گئے یہ براہ راست معاہدے تحفظات پیدا کر رہے تھے۔ بلوچستان حکومت کی پریس ریلیز میں یہ کہا گیا تھا کہ ”اس طرح کے معاہدوں کو فوری طور پر معطل کردیا جائے گا۔“ یہ لیجئے جناب بلیغ الرحمن صاحب۔

چار ماہ قبل بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا عبد الواسع نے اس منسوخی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ہرنائی کے شاہرغ اور خوست کے علاقوں میں کوئلے کی کانوں کے مالکان اور ٹھیکیداروں کے درمیان معاہدے کی مخالفت علاقے کے لوگوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ جاننے کا مطالبہ کیا کہ ہرنائی میں کان مالکان اور ایف سی کے درمیان معاہدوں کی مخالفت کیونکر کی جا رہی ہے جبکہ ایف سی نے چمالنگ، دکی اور دیگر علاقوں میں اسی طرح کے معاہدے کر رکھے ہیں جو کہ نافذالعمل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایف سی کو ہرنائی، شاہرغ اور خوست میں کوئلے کی کانوں سے ہٹا دیا گیا تو سب لوگ کوئٹہ اور بلوچستان بھر سے ایف سی کو ہٹانے کا مطالبہ کریں گے۔ بعض مالکان اور ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر ایف سی کیساتھ سیکورٹی معاہدے کیے ہیں چونکہ ضلعی انتطامیہ سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور خیال ظاہر کیا کہ یہ بھی چمالنگ اور دکی طرز کے معاہدے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہرنائی میں واقع واریزئی زرکون کوئلے کی کانوں کے منصوبے سیکورٹی کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے، ایف سی کے تحفظ کے تحت فروری میں دوبارہ شروع کیے گئے۔

مشکلات میں گھرے مالکان اور ٹھیکیداران کی طرف سے کیا جانیوالا یہ دعویٰ کہ فی ٹن کوئلے پر 220 روپے کی قیمت پر تحفظ کی رقم کی ادائیگی کوئلے کی بلارکاوٹ کانکنی اور مارکیٹینگ کیلئے انکے اور ایف سی کے درمیان ایک رضامندانہ معاہدہ ہے، جوکہ ایک انتہائی حیرت انگیز امر ہے کیونکہ اسکی افواج کو حفاظت کرنے کیلئے ریاست کی طرف سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تحفظ کی رقم کے طور پر اضافی کمائی دراصل ’بھتہ خوری‘ کے بدصورت لفظ کیلئے محض ایک زیادہ قابل احترام نام ہے جو دوسروں پر قابل اطلاق ہے مگر مقدس گایوں پر نہیں۔

آئیں اس معاملے کے کچھ اور پہلووں پر نظر ڈالتے ہیں۔ تخمینوں کے مطابق بلوچستان میں اعلیٰ معیار کے کوئلے کے 217 ملین ٹن کے متوقع ذخائر موجود ہیں جن میں سے 76 صرف ضلع ہرنائی میں ہیں۔ ہرنائی اور زرکون کوئلے کی کانوں میں کوئلے کی یومیہ پیداوار 4000 سے 5000 ٹن ہو سکتی ہے۔ صرف یہی ایف سی کو کم از کم دس لاکھ روپے یومیہ اضافی آمدنی دے گی اور اسکا مطلب ہے کہ یہ 365 ملین روپے سالانہ ہڑپ لیتی ہے، یہ بری چیز نہیں ہے جب حب الوطنی کیلئے بھی آپکی تعریف کی جا تی ہو اور خدمات کی انجام دہی کیلئے سینے ٹھوکنے کی رسم کا بھی باضابطہ مظاہرہ ہوتا ہو۔ سال 2013-2014 میں صرف شاہرغ خوست ہرنائی کوئلہ فیلڈ کی پیداوار 188,389 ٹن تھی جسکے لئے تحفظ کی رقم 41,445,580 روپے ہوگی۔ چمالنگ اور کوئلے کی دیگر فیلڈز سے کتنا پیسہ آتا ہے اسکے بارے میں صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ تحفظ کی کتنی رقم فی ٹن محصول ہوتی ہے اور وہاں کی پیداوار کتنی ہے۔ تاہم، اگر یہ رقم ہرنائی اور زرکون کوئلے کی کانوں کے آس پاس بھی ہو، یہ زیادہ بھی ہو سکتی ہے، تو تب بھی اعلیٰ افسران کو اپنی تجوری میں آنیوالی رقم سے کافی خوش ہونا چاہئے۔

ستمبر 2013 کی ایک رپورٹ میں جہاں کیانی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا گیا: ”فوج چمالنگ، موسیٰ خیل اور دکی میں کوئلے کی کانوں، کسّا ہل ماربل منصوبے اور پنجگور میں کجھوروں کی کاشتکاری کے ترقیاتی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔“ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہر کڑھائی میں انکی ایک انگلی ہے اور قدرتی طور پر زیادہ تر منصوبوں کو تحفظ کی ضرورت ہے، اور تحفظ ایک قیمت پر ملتی ہے۔ کسّا ہل ماربل پراجیکٹ کا افتتاح خود جنرل کیانی نے کیا تھا اور اس میں بھی، زرکون واریزئی کوئلے کی کانوں کے منصوبے کی طرح، فوج نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

جو چیز آپ کیلئے جتنی اچھی ہو اسے سب کیلئے بھی یکساں طور پر اچھا ہونا چاہیئے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے: دیگر تمام لوگ جو کراچی یا دوسری جگہوں میں تحفظ کی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں شیطان قرار دیا جاتا ہے اور ان کیلئے ریاست کے پاس رتی بھی برداشت نہیں مگر جب خود ریاستی ادارے تحفظ کیلئے پیسے وصول کریں تو یہ اچانک قابل احترام اور حلال بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں 2010 کے سیلاب کے دوران فوج نے اپنے 30 ہیلی کاپٹروں کے 1,000 سے زائد چکروں کے کرایوں کی مد میں خیبر پختونخوا حکومت کو 20 ملین روپے کا بل بھیجا جنہوں نے زیرآب علاقوں میں 28 جولائی، جس دن سیلاب سب سے پہلے سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوا تھا، تا 4 اگست چکر لگائے۔ ریسکیو آپریشن میں استعمال کیے گئے آٹھ امریکی چنوک ہیلی کاپٹروں کے کرایے بھی ادا کیے گئے۔ سینیٹ کو یہ بتایا گیا کہ 2011 کے بعد سے 513 ارب روپے ’سویلین ٹوکرے‘ سے مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کو پنشن کی مد میں ادا کیے گئے ہیں اور سال 2000 سے معاملہ یہی رہا ہے۔ ریسکیو بھی ایک قیمت پر ملتی ہے۔

سعدی شیرازی کی ایک تمثیل بتاتی ہے کہ ایک چرواہے نے بھیڑ کے ایک بچے کو ایک بھیڑیے کے چنگل سے بچا لیا تھا اور وہ ایک نجات دہندہ تصور کیا جاتا تھا لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ اسے ذبح کرنے کیلئے آیا تو تب بھیڑ کو یہ احساس ہوا کہ اسے کیونکر بچایا گیا تھا۔ یہاں لوگ ہمیشہ یا تو اکّڑ یا پھر بکّڑ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں جیساکہ انہیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جان بخشی کیلئے ان میں سے کسی ایک کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ لوگ وہاں کیسے کسی اچھے مستقبل کی امید کر سکتے ہیں جہاں انہیں ایک ایسا منظر نامے کا سامنا ہو جس میں انہیں یا تو اکّڑ یا پھر بکّڑ کی اطاعت اختیار کرنی پڑے؟

مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے

وہ @mmatalpur پر ٹویٹس کرتے ہیں

اور mmatalpur@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

بشکریہ : ڈیلی ٹائمز، اتوار، 9 اگست 2015

To read in English Click HERE

Leave a comment

Filed under Mir Mohammad Ali Talpur

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s