Baloch nationalist leader Dr Allah Nazar Baloch commenting on Suleman Dawood’s 27 October, 2014 statement said that Suleman Dawood’s statement clearly shows that he still considers himself the Sultan and the Baloch people his subjects which is a brazen demonstration of his immature and anachronistic mentality.
Dr. Allah Nazar Baloch said that Suleman Dawood called me a “Sardar Commander” while I am not a Sardar Commander but a freedom-loving Baloch struggling for Baloch national liberation for a prosperous, independent and democratic Balochistan. Not only to me but to the majority of Baloch people the obsolete institutions of Sardar, Khanate and Sultanate have lost their usefulness. In his statement Suleman Dawood referred to the Ahmadzai heroes who are respected by the whole nation including myself. Instead of enumerating the sacrifices of those heroes, Suleman Dawood should have brought forth to the nation about his own role in the liberation movement. Shaheed Agha Mahmood Jan was not martyred by the hands of the enemy for his Sultanate but for the struggle for a free, prosperous and democratic Balochistan. Shaheed Agha Mahmood Jan’s opinion about him was: “Suleman Dawood is a cheap commodity for sale.” These words are part of history now. Suleman Dawood has rightly said that it was Agha Abdul Karim who laid the foundation of Baloch Sarmacharism. But he should also have mentioned the fact that while Agha Abdul Karim was fighting for freedom against Pakistan’s occupation, his grandfather declared Agha Abdul Karim a rebel by issuing a decree in favor of Pakistan and exhorted the Baloch people not to help him in any way. If today on one hand Agha Abdul Karim’s great grandson is within the ranks of Baloch Saramachars on the other hand Ahmad Yar Khan’s great grandson is hoisting Pakistani flag with the Corpse Commander of the army that have occupied the Baloch homeland.
Dr. Allah Nazar Baloch said that the gun that Suleman Dawood gifted to General Pervez Musharraf was not a gesture of Baloch hospitality but an expression of support for Pakistan army against Baloch. No doubt that Baloch, according to their traditions, are hospitable to their guests beyond their financial position but there is a huge difference between serving a guest and arming the occupying enemy. Dr. Allah Nazar said that those working class Baloch living in the Gulf and Europe who succored Suleman Dawood as their guest, calling them black sheep is nothing but his inanity. Dr. Allah Nazar said that Suleman Dawood has mentioned about my abduction and the “privileges and facilities” I received in the torture chambers during my incarceration with such an envy that I wish he would have been living here at home and talked about freedom so he might would have received those “privileges and facilities” too. But only the thought of those “privileges” have frightened him to the extent that he fled abroad.
بلوچ قوم دوست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بارے میں سلیمان داؤد کے 27 اکتوبر 2014 کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلیمان داؤد کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی خود کو سلطان اور بلوچ عوام کو اپنی رعیت سمجھتے ہیں جو ان کی ناپختہ و فرسودہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سلیمان داؤد نے اپنے بارے میں کہاوت ’’پدرِ من سلطان بود‘‘ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’پدر در پدر‘‘ بھی ’’سلطان‘‘ ہیں، اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ واقعی وہ سلطان تھے، اسلئے نہ ان کی سلطانی رہی اور نہ سلطنت۔ اگر وہ تیزی سے بدلتے حالات کا ادراک کرکے سلطان سے قومی رہنما بن جاتے تو بلوچ آج قومی محکومیت و زیر دستی کی چکّی میں نہ پس رہے ہوتے۔ سلیمان داؤد نے میرے اجداد کے بارے میں پوچھا ہے کہ ’’پدر تو کی است‘‘، تو میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ’’پدرمن بلوچ بود، کار سپاہ گری بود، نہ کہ سوداگری‘‘۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کے آخری ایام میں سلیمان داؤد کے دادا احمد یار خان گورنر بن کر بے سر و سامان بلوچ حریت پسندوں کو دشمن آرمی کے سامنے سرنڈر کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تو میرے والد پس زندان تھے اور میرا بھائی بے سر و سامانی کی حالت میں بلوچ سرمچاروں کے درمیان موجود تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے مجھے سردار کمانڈر کہا ہے جبکہ میں کوئی سردار کمانڈر نہیں بلکہ ایک آزادی پسند بلوچ ہوں اور بلوچ قومی آزادی، خوشحال، آزاد و جمہوری بلوچستان کیلئے جد و جہد کر رہا ہوں۔ صرف میرے نہیں بلکہ بلوچ قوم کی اکثریت کے نزدیک سرداریت، خانیت اور سلطانیت جیسے ادارے فرسودہ ہو کر اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ سلیمان داؤد نے اپنے بیان میں جن احمد زئی اکابرین کی قربانیاں گنوائی ہیں وہ مجھ سمیت پوری قوم کیلئے قابل احترام ہیں، ان اکابرین کی قربانیاں گنوانے کے بجائے سلیمان داؤد کو تحریک آزادی میں اپنا کردار قوم کو بتانا چاہئے تھا۔ شہید آغا محمود جان سلیمان داؤد کی سلطانی کیلئے نہیں بلکہ آزاد، خوشحال، جمہوری بلوچستان کی جد و جہد میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ شہید آغا محمود جان کی رائے سلیمان کے متعلق یہ تھی کہ ’سلیمان داؤد ایک سستی شئے برائے فروخت ہے‘، یہ الفاظ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ سلیمان داؤد نے دُرست کہا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کیلئے سرمچاریت کی بنیاد رکھنے والے آغا عبدالکریم بلوچ ہی ہیں مگر انہیں یہ سچ بھی بتا دینا چاہئے تھا کہ جب آغا عبدالکریم پاکستانی قبضے کیخلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو سلیمان داؤد کے دادا نے قابض پاکستان کی حمایت میں فرمان جاری کرکے آغا عبدالکریم کو باغی قرار دیا تھا اور بلوچ عوام کو تاکید کی تھی کہ وہ آغا عبدالکریم کی کسی بھی طرح سے مدد نہ کریں۔ آج اگر آغا عبدالکریم کا پوتا بلوچ آزادی پسندوں کی صفوں میں بیٹھا ہے تو دوسری طرف سلیمان داؤد کا بیٹا اور احمد یار خان کا پڑپوتا بلوچ وطن پر قابض پاکستان آرمی کے کور کمانڈر کے ساتھ ملکر پاکستان کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کو سلیمان داؤد نے جو بندوق دی تھی وہ مہمان نوازی نہیں بلکہ قوم کیخلاف آرمی کی حمایت کا اظہار تھا۔ بیشک بلوچ اپنی روایت کیمطابق اپنی مالی حالت سے بڑھ کر مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں مگر گھر آئے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور وطن پر قابض دشمن کو مسلح کرنے میں بہت فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم جن محنت پیشہ بلوچوں نے مہمان نوازی کی روایت کے تحت سلیمان داؤد کی خدمت کی تھی انہیں کالی بھیڑیں قرار دینا سلیمان داؤد کی کم ظرفی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میرے اغواء اور ریاستی عقوبت خانوں میں مجھے دی گئی ’’مراعات و سہولیات‘‘ کا جس رشک سے بیان کیا ہے، کاش وہ وطن میں رہتے اور آزادی کی بات بھی کرتے تو شاید وہ ’’مراعات و سہولیات‘‘ اُنہیں بھی نصیب ہوتیں، مگر وہ ان ’’مراعات ‘‘ کے محض تصور سے ہی خوفزدہ ہوکر بیرون ملک بھاگ گئے۔ جہان تک بیرون ملک سفارتکاری کی بھڑک بازی کا تعلق ہے تو امریکی کانگریس یا دوسرے فورمز پر بلوچ آجوئی زیر بحث آنے کی وجہ سلیمان داؤد کی سفارتکاری سے نہیں بلکہ یہ سب بلوچ شہیدوں، سرمچاروں، آزادی پسند سیاسی کارکنوں و تنظیموں، بلوچ لکھاریوں، ریاستی عقوبت خانوں میں جبری طور پر لاپتہ بلوچ فرزندوں اور بلوچ عوام کی بے پناہ قربانیوں کے باعث ممکن ہوا ہے۔ جہاں تک سلیمان داؤد کا تعلق ہے تو وہ دولت اور اثر و رسوخ کے بھوکے ہیں۔ بلوچ قومی ملکیت شاہی تاج کے ہیرے فروخت کرکے اور کوئٹہ قلعے کو کڑوروں روپے کے لیز پر دینے سے اسکی دولت کمانے کی بھوک نہیں مٹی تو ٹیتھیان جیسے ملٹی نیشنل کمپنیوں و دیگر کے ہاتھوں بلوچ وسائل کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی ساز باز کی کوشش میں ملوث ہوئے۔ انکی سفارتکاری کے کارنامے یہی ہیں۔ رہی بات میرے اور میر ہیربیار مری کے درمیان ہونیوالی اتحاد کی بات چیت کی تو سلیمان داؤد اس میں کبھی بھی شریک نہیں ہوئے۔ لہٰذا اس بے اعتبار شخص کے اس دعوے پر تبصرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سلیمان داؤد مجھ سمیت بلوچ سرمچاروں اور آزادی پسندوں کی بڑی اکثریت کو کالی بھیڑیں قرار دیکر فدائین اتارنے کی جو خوشخبری سنارہے ہیں، تو بلوچ عوام جانتے ہیں کہ وہ کالی بھیڑیں کون ہیں۔ سلیمان داؤد اپنی سپریم کونسل کے ارکان سردار اسلم رئیسانی، سردار ثناء اللہ زہری اور نواب مگسی کی زیر قیادت ریاستی ڈیتھ اسکواڈوں، مسلح دفاع آرمی اور تحریک نفاذ امن جیسے کرایے کے قاتلوں کی ناکامی کے بعد کونسے فدائین میدان جنگ میں اتارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟ البتہ کمپنی بہادر و جنداللہ اور اس قسم کی دیگر فرقہ پرست و انتہا پسند گروہوں کیساتھ انکے تعلقات کی بازگشت آجکل سنائی دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ سلیمان داؤد کسی خانہ جنگی کی تیاری کر رہے ہوں اور ان خدشات کا اظہار ہم پہلے دو دفعہ کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سلیمان داؤد نے میری صحت کی خرابی اور مجھے علاج کی سہولیات کی دستیابی اور آزاد نقل و حرکت کے بارے میں اظہار کرکے بدگمانیاں پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، اور انکی ترکش سے نکلا یہ تیر بھی ہدف پر نہیں لگے گا۔ ہزاروں میل دور لندن کی ٹھنڈی چھاؤں میں رہنے والوں کے پھیلائے گئے جھوٹ اور بد گمانیوں پر بلوچ عوام کبھی اعتبار نہیں کریں گے۔ کیونکہ بلوچ قوم مجھے بہت قریب سے دیکھ رہی ہے اور میری صحت کی خرابی سلیمان داؤد کے آقاؤں کی دین ہے۔ جبکہ میری آزادانہ نقل و حرکت بلوچ قوم کی حمایت و ہمدردی کے باعث ممکن ہے۔ سلیمان داؤد کو اب یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ اب وہ نہ سلطان رہے اور نہ ہی گوادر پلیری کے شئے انہیں امام مہدی قرار دینے پر کسی طرح سے راضی ہیں