میں آج آپ محترمین کو اپنا نوحہ سنانے بلوچستان کے دور افتادہ علاقے نال خضدار سے آئی ہوں۔ میرے ہمراہ میرا یہ معصوم بچہ قمبر بھی ہے۔ میرے شوہر زاھد بلوچ کو آج سے تین مہینے پہ…لے کوئٹہ سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ایف سی کی مدد سے اغواء کیا جو تاحال لاپتہ ہیں ۔ ان تین مہینے کے دوران مجھ سمیت میرے دو بچے اور زاھد بلوچ کے ضعیف والد اور والدہ جس قرب سے گذر رہے ہیں وہ شاید میں لفظوں میں بیان نا کرسکوں، لیکن انصاف کے ہر در پر دستک دے کر مایوس لوٹنے کے بعد میری آخری امید و سہارا حق و سچ کے علمبردار آپ صحافی حضرات ہی ہیں ۔ آج آپ کے سامنے صرف اس امید سے پیش ہوئی ہوں کہ شاید آپ کے توسط سے میری فریاد کسی ایسے سماعت سے ٹکرائے جو مجھے اور میرے ان دو معصوم بچوں کو انصاف دلا سکے ۔
محترم حاضرین کرام !
زاھد بلوچ ایک تنظیم کے چیئرمین تھے اور پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے ایک پر امن سیاسی کارکن کو اس طرح صفحہ ہستی سے غائب کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ اگر زاھد بلوچ نے کوئی گناہ کیا ہے یا اس پر کوئی بھی الزام ہے تو پھر پاکستان میں ایک قانون ہے ایک آئین ہے، آپ اسے اپنے ہی آئین و قانون کے مطابق اپنے ہی عدالتوں میں پیش کرکے اس پر جرم ثابت کریں پھر اسے جو دل چاہے سزا دیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ زاھد بلوچ کے ساتھ اس کے پورے خاندان کو ہی ایک اذیت میں مبتلاء کریں ۔ بالفرض اگر زاھد گنہگار ہے بھی تو پھر آپ بتائیں میرا اس میں کیا قصور ہے کہ میں اسکا سزا بھگت رہی ہوں ، میرے ان کمسن بچوں قمبر اور دودا کا کیا قصور ہے جو اس عمر میں روز اپنے والد کے انتظار میں دروازہ تکتے رہتے ہیں اور ہر آنے والے کو اس امید و آس سے دیکھتے ہیں کہ شاید وہ انکے والد کی خبر لایا ہو ، آپ مجھے بتائیں زاھد بلوچ کے ضعیف والد و والدہ کا کیا قصور ہے جو اپنے جوانسال بیٹے کیلئے بھری نیند سے اٹھ کر گڑا گڑا کر روتے ہیں ۔ مجھ سے قمبرو دودا روز پوچھتے ہیں کہ ہمارے ابو کہا ں ہیں ، میں روز ایک نیا جھوٹ ان سے بولتی ہوں آج انکو میں آپکے سامنے لائی ہوں تاکہ آپ انکے اس سوال کا جواب دیں کیونکہ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں انہیں یہ کہہ سکوں کے ان کے والد باقی 18000 بلوچوں کے ہمراہ ایک ایسے جہنم میں جھونک دیئے گئے ہیں جہاں سے واپس بلوچوں کی سر بریدہ لاشیں ہی آتی ہیں ۔ میرے ان بچوں کی عمر پڑھنے لکھنے کی ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر کھیلنے کودنے کی ہے لیکن آخر کس ناکردہ گناہ کی پاداش میں آپ ان کے نونہال کندھوں پر وہ بوجھ ڈال رہے ہیں جو کسی کے بھی کندھے جھکا کر اسکی کمر توڑ دینے کیلئے کافی ہے ؟ آخر کیوں آپ کے بچوں کیلئے پڑھا لکھا پنجاب اور مجھے جیسے ایک بد نصیب بلوچ ماں کے بچوں کیلئے پریس کلب و احتجاج ؟
زاھد بلوچ کی ضعیف والدہ اپنے بچے کے انتظار میں رو رو کر ہلکان ہوچکی ہے اور بیمار ہوکر بستر مرگ پر لگ چکی ہے ، نا وہ کچھ کھا رہی ہے نا پی رہی ہے کیا آپ میں سے یا پاکستان کے مقتدرہ میں سے کوئی اسے آکر یہ بتاسکتا ہے کہ اس کے بچے کو پاکستان کے کس قانون کے تحت دنیا کے کس انصاف کے تقاضے کے تحت یوں غائب کیاگیا ہے ؟آخر آپ کے قانون و آئین میں کہاں لکھا ہے کہ مجھے بغیر کسی گناہ کے بھرے گھر سے نکال کر یوں پریس کلبوں کے سامنے خاک چھاننے پر مجبور کریں ؟ محترم صحافی برادری ہزاروں صفحات قانون کے سیاہی سے سیاہ کرنے کے بعد بھی اگر ریاست کسی شخص کو ماورائے قانون یوں اغواء کرکے اپنے ہی قانون کو توڑ دے تو کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس شخص نے اصل میں آپ کے آئین و قانون کے مطابق کوئی جرم ہی نہیں کیا ہے ؟ ورنہ جو قانون ٹریفک کے ایک سگنل توڑنے تک پر سزا تجویز کرسکتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شخص کیلئے جسے آپ انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں اس کے لئے قانون میں کوئی سزا نا ہو، کیا اپنے ہی قانون کو یوں توڑنا سب سے بڑی دہشتگردی نہیں ؟ ۔ ہم آخر مطالبہ کیا کررہے ہیں یہی کہ اگر زاھد بلوچ کسی بھی جرم میں ملوث ہے یا اس پر کوئی بھی الزام ہے اسے آپ عدالتوں میں پیش کرکے اس پر وہ جرم ثابت کریں پھر بھلے آپ اسے پھانسی دے دیں لیکن آخر کیوں انصاف کا یہ سادہ سا تقاضہ اس ملک میں امر محال بن چکا ہے ؟۔ بلوچستان میں روز ہم کسی مسخ شدہ لاش کے ملنے کی خبر سنتے ہیں اور ہر گرتے لاش کے ساتھ ہمارا بھی ایک حصہ مرجاتا ہے اس غم میں کہ کہیں وہ لاش زاھد بلوچ کی نا ہو، ہر لاش کے ساتھ میرے دوبچوں دودا و قمبر کے بچپن کی ایک خواہش دم توڑ دیتی ہے ، ہر لاش کے گرنے کے ساتھ ہی زاھد بلوچ کی ضعیف والدہ ایک زندہ لاش بن جاتی ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے کہ ہمیں مملکتِ خداداد پاکستان یوں قسطوں میں مار رہا ہے ؟ کیا ہم بلوچ آپ سے کم انسان ہیں جہاں باقی پاکستان میں کسی لیڈر کو چھینک بھی آتی ہے تو میڈیا اسے بریکنگ نیوز میں نشر کرتا ہے لیکن یہاں بلوچستان کے سب سے بڑے تنظیم کا چیئرمین ، ایک ہونہار طالبعلم ، ایک شفیق باپ ، ایک ذمہ دار شوہر اور ایک فرمانبردار بیٹا تین مہینوں سے ریاستی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں اور میڈیا کو جوں تک نہیں رینگتی ۔ اگر آپ اپنے اس بلوچ بیگانگی کے باوجود بھی کمسن دودا اور قمبرسے وعدہ وفا کی امید رکھیں تو یہ آپ کے خام خیالی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔
حق و سچ کے پیامبروں !
میں آج آپ کے سامنے فریاد صرف اسلیئے کر رہی ہوں کیونکہ میری آخری امید آپ ہو ، مجھے امید ہے کہ آپ مجھ بلوچ کو اپنی ماں ، بہن بیٹی سمجھ کر میری آواز کو ہر اس جگہ پہنچاو گے جہاں سے انصاف کی تھوڑی بھی امید ہو ۔ میں آپ کے توسط سے سپریم کورٹ آف پاکستان ، اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے تمام علمبردار اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ زاھد بلوچ کے بحفاظت بازیابی کو ممکن بناکر ہمیں انصاف دلائیں اور ہمارے اس اجڑے خاندان کو دوبارہ آباد کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ میں آپ محترم صحافی خواتین و حضرات کو آگاہ کرنا چاہتی ہوں کہ میں آج سے بطور احتجاج اس پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ رہی ہوں میرا دوسرا بیٹا دودا بیماری کی وجہ سے ہیاں تک پہنچ نہیں سکا مگر اس بھوک ہڑتال میں میرا یہ کمسن بیٹا قمبرمیرے ساتھ رہے گا تاکہ وہ آج ہی اس ریاست میں انصاف اور نا انصافی کے پیمانوں کو اپنی نظروں سے دیکھے۔
شکریہ
زرجان بلوچ اہلیہ لاپتہ زاھد بلوچ