پاکستان میں بلوچی زبان کے پہلے اور واحد ٹی وی نیوز چینل ’وش نیوز‘ نے اپنی نشریات بند کردی ہیں۔ ادارے کی ویب سائٹ پر سیاہ الفاظ میں تحریر ہے کہ بلوچ میڈیا سرکاری اشتہارات سے محروم کیوں؟وش نیوز کا آغاز پانچ سال قبل کیا گیا تھا۔
اس کا صدر دفتر کراچی میں واقع ہے، جب کہ اسلام آباد اور کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں اس کے مقامی دفاتر موجود ہیں، جن سے500 سے زائد صحافتی اور تیکنیکی عملہ منسلک ہے۔
وش نیوز چینل کے چیف ایگزیکٹیو افسر احمد اقبال کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ پانچ برسوں سے چینل کو اپنے وسائل پر چلاتے رہے ہیں اس کے لیے انھیں اپنی املاک تک فروخت کرنی پڑیں لیکن حکومت سے انھیں کوئی مالی معاونت حاصل نہیں رہی۔
احمد اقبال کے مطابق ان کا ادارہ پاک سیٹ کا ڈیڑھ کروڑ روپے کا مقروض ہوگیا تھا، انھیں مہلت بھی نہیں دی گئی اور چینل آف ایئر کردیا گیا۔
ادھر بی بی سی کی جانب سے پاک سیٹ کے اسلام آباد آفس رابطہ کیا گیا جہاں سے کراچی دفتر رابطہ کرنے کو کہا گیا اور کراچی دفتر نے اسلام آباد سے موقف لینے کا مشورہ دیا۔
وش نیوز کے چیف ایگزیکٹیو افسر کے مطابق وفاقی حکومت، بلوچستان اور سندھ حکومت انھیں اشتہارات فراہم نہیں کرتی جبکہ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے نجی اشتہارات نہیں ملتے۔
’اس کا مطلب یہی لیں گے کہ وہ ہمیں بند کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ میڈیا کے اداروں کو چلانے کے لیے حکومتی اشتہارات پر ہی دار و مدار ہوتا ہے۔‘
بلوچستان میں ریاستی اداروں اور علیحدگی پسند گروہوں کی ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، جس کے دوران انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی شکایات کرتی رہی ہیں لیکن ریاستی اداروں کے دباؤ کے باعث یہ واقعات میڈیا میں کم ہی سامنے آتے ہیں جبکہ علیحدگی پسند گروہ بھی کوریج کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
وہ ادارے جن کے مالکان بلوچ ہیں خاص طور دباؤ کا شکار ہیں۔ کچھ عرصے قبل روزنامہ ’آساب‘ کے مالک جان محمد گچکی پر حملہ کیا گیا جس کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے اور اخبار بند ہوگیا۔ کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’توار‘ کے دفتر پر سول کپڑوں میں اہل کاروں نے چھاپہ مارا جس کے بعد اخبار کا باقاعدہ اجرا بند ہوگیا۔ روزنامہ توار بلوچ قومی تحریک کا ترجمان اخبار سمجھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں بلوچ آبادی کے اس وقت دو ترجمان اخبار روزنامہ ’انتخاب‘ اور ’آزادی‘ موجود ہیں۔ روزنامہ ’انتخاب‘ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر انور ساجدی کہتے ہیں کہ ان اخبارات کی بھی بری صورت حال ہے اور انھیں انتہائی مشکل مالی حالات میں چلایا جا رہا ہے:
’جب سے بلوچستان کے حالات خراب ہوئے ہیں وہ (پاکستانی اسٹیبلشمنٹ) آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور اشتہارات کو آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اخبارات کی معاشی موت ہوجائے۔ وفاقی حکومت نے تو مکمل طور پر اشتہار بند رکھے ہیں جبکہ صوبائی حکومت بھی بتدریج اشتہارات کم کرکے اخبار کو کسی خاص مقام پر پہنچانا چاہتی ہے۔‘
ان کے مطابق ڈمی اخبارات پر ان کی مہربانی زیادہ ہے کیونکہ اس سے دو فائدے ہیں، ایک تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اشتہار دیے جا رہے ہیں دوسرا اس میں کرپشن کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
بلوچستان کے صنعتی علاقے حب، وندر اور کوئٹہ میں کئی کارخانے موجود ہیں، لیکن میڈیا کے اداروں کا کہنا ہے کہ وہاں سے بھی انھیں کوئی اشتہار نہیں ملتا۔
انور ساجدی کہتے ہیں کہ وہ صرف سرکیولیشن کی بنیاد پر ہی چل رہے ہیں، ان کا آٹھ صفحات کا اخبار ہے لیکن اس کی قیمت 12 روپے ہے جو اس وقت پاکستان کے مہنگے اخبارات کے برابر ہے۔ اگر صورت حال اس طرح مزید خراب ہوئی تو وہ قیمت مزید بڑھا دیں گے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نجی اشتہارت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ہے، جبکہ سرکاری اشتہارات کے لیے پالیسی یہ ہوتی ہے کہ جس اخبار کی زیادہ سرکولیشن ہوگی اس کے حصے میں زیادہ اشتہارات آئیں گے۔
صحافتی تنظیموں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اشتہارات حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہونے چاہییں، حکومت اپنے پسندیدہ اداروں کو اشتہارات جاری کرتی ہے جو حکومت کے خلاف ہوتے ہیں ان کے حصے سے کٹوتی کرتی ہے۔ یہ اشتہارات ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، انٹیلی جنس اداروں کا بھی اس میں عمل دخل رہتا ہے۔
صوبہ بلوچستان میں صحافت کم معاوضے والا لیکن خطرناک پیشہ ہے۔ یہاں گذشتہ پانچ برس میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 25 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔