افسر کے مطابق یہ فوجی علاقے میں جاری امدادی کارروائیوں میں شریک تھے کہ سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بنے اور اس دھماکے میں تین فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔پاکستان کے عسکری ذرائع کے مطابق یہ امدادی آپریشن میں مصروف فوجیوں پر ہونے والا ساتواں حملہ ہے، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ایسے حملوں میں کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔
اس سے قبل مشکے میں ہی گذشتہ جمعرات کو امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے پاکستانی فوج کے میجر جنرل شمریز سالک کے ہیلی کاپٹر پر راکٹ بھی داغے گئے تھے۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
عسکریت پسند گروہ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مشکے کے قریبی پہاڑوں میں پاکستان کی فوج کی دو گاڑیوں میں سوار اہلکاروں کا عسکریت پسندوں سے مقابلہ بھی ہوا ہے جس میں چودہ لوگ مارے گئے ہیں تاہم اس دعوے کی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
خیال رہے کہ مشکے ڈاکٹر اللہ نذر کا آبائی علاقہ ہے اور یہاں ان کے ساتھیوں کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔
بلوچستان میں ستمبر کے آخری ہفتے میں آنے والے دو زلزلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور وہاں امدادی کارروائیوں میں پاکستانی فوج کے دو ہزار جوان شریک ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی تقسیم فرنٹیئر کور کی نگرانی اور حفاظت میں کی جا رہی ہے، جس کی مزاحمت کار مخالفت کر رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک بلوچ علیحدگی پسند رہنما ڈاکٹر منان بلوچ نے بی بی سی اردو سے بات چیت میں کہا تھا کہ پاکستان کی ریاست اور فوج زلزلے میں امداد اور تعاون کے نام پر فنڈ بٹورنا اور سیاست کرنا چاہتی ہے اور وہ اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
تاہم بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں فرنٹیئر کور کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ انہوں نے مزاحمت کاروں سے اپیل کی تھی مشکل حالات میں لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور جو بھی ان کی مدد کرنا چاہے اسے کرنے دی جائے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں نے یہ خدشات بھی ظاہر کیے تھے کہ پاکستانی فوج علاقے میں امدادی کارروائیوں کی آڑ میں اُن کے خلاف آپریشن کر سکتی ہے جس پر پاکستان میں ریاستی اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
[بشکریہ:بی بی سی اردو]