April 7, 2013 · 11:12 pm
بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کو بہت کم اس بات کا ادراک ہے کہ تباہی، غارت گری اور ویرانی کا پھندا عوام کی گردن کے گرد کس جائیگا

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک توہین آمیز طعن انکی توجہ سے بچ نکلا؛ سردار اختر مینگل کا آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ٹھیک 27 مارچ کو سامنے آیا، وہ دن کہ جسے بلوچ قومپرستوں نے ’یوم سیاہ‘ کے طور پر منایا، کیونکہ 1948ء کو اسی دن بلوچستان پرزبردستی قبضہ کیا گیا تھا اور بلوچ کو اپنی آزادی سے محروم کردیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 25 مارچ کو انہوں نے پہنچنے پر کہا تھا کہ ان کے گزشتہ سال ستمبر میں سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد سے اب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تب سے اب تک 70 لاشیں پھینکی گئی ہیں اور 60 ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے اپنے خیالات کو غلطی سے طاقت کے ذریعے تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہی اداروں نے بلوچستان کو موجودہ نازک صورتحال کی طرف دھکیلا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرملک میں آئینی حکمرانی ہوتی تو وہ چار سال جلاوطنی میں نہ رہتے اور ان کا خیال یہ تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے مداخلت کو ختم کیے بغیر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکتا، اور مزید براں یہ کہ نگراں حکومت کا دو ماہ کے اندر امن و امان بحال کرنے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے، جہاں پچھلے حکمران اس میں ناکام رہے ہوں۔ انہوں نے زور دے کر مزید کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ’خون آلود‘ بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد کس طرح کیا جائیگا ۔