ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ”حقائق جاننے والا“ مشن فقط ”انسانی“ بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور سے بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا
اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں (ڈبلیو جی ای آئی ڈی)، جوکہ چیئرپرسن اولیویئر ڈی فراو ولے اور عثمان ال حجے پر مشتمل تھا، اپنے دس روزہ باضابطہ دورے کے اختتام پر انہوں نے ایک مختصر رپورٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے تکلیف دہ انداز میں بلوچستان اور دیگر مقامات میں لاپتہ افراد کی حالت زار پر زور دیا کہ، ”زیادہ تر خاندانوں، کہ جن سے ہم ملے ہیں، اپنی کہانیاں بتاتے، افتادگی اور ناامیدی کے احساس میں مبتلا ہیں۔“ وہ خاندان صرف اسی طرح ہی محسوس کرسکتے ہیں جنکے لاپتہ رشتہ داروں کو ریاست کی طرف سے ’غیر رضاکارنہ طور پر غائب‘ کردیا گیا ہو اور جن کیلئے انصاف مہیا ہونے کا کوئی ذریعہ نہ ہو، کیونکہ کوئی بھی ادارہ، یہاں تک کہ اگر وہ چاہے تو تب بھی، اتنا طاقتور یا بے دھڑک اقدام اٹھانے والا نہیں ہے کہ وہ ’جبری اور غیر رضاکارانہ طور پر گمشدگیوں‘ کے ذمہ داران کو چیلنج کرسکے۔
شیخ سعدی گلستان میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ ایک بادشاہ کسی ہولناک مرض میں مبتلا ہوگیا اور انہیں انکے حکیموں کی طرف سے کہا گیا کہ صرف مخصوص جسمانی خصوصیات کے حامل شخص کا زردآب آپکے درد کو تسکین پہنچا سکتا ہے۔ بہت تلاش کے بعد، ان کو اس معیار پر پورا اترنے والے ایک کسان کا بیٹا مل گیا۔ اس کے والدین کو طلب کیا گیا اور انہیں مال و دولت دے کر ان کی رضامندی حاصل کی گئی۔ قاضی نے بہ آسانی حکم جاری کیا کہ رعایا میں سے کسی کا خون بہانا جائز ہے، اگر یہ بادشاہ کی حفاظت کیلئے ضروری ہو، اور جلاد نے اپنی تلوار تیز کردی۔ بدبخت لڑکے نے کلبوت پر آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ حیران بادشاہ نے پوچھا، ”ایسی حالت میں کس چیز نے تمہیں مسکرانے پر اکسایا؟“ نوجوانوں نے دانشمندی سے جواب دیا، ”ایک بیٹا اپنے والدین سے محبت کی توقع رکھتا ہے اور بادشاہ سے انصاف کے حصول کیلئے قاضی کے سامنے ایک درخواست کیساتھ ان سے حفاظت کی توقع رکھتا ہے۔ میرے معاملے میں والدین دنیاوی مفاد کیلئے اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوچکے ہیں، قاضی نے میرا قتل جائز قرار دے دیا ہے، بادشاہ کو یہ لگتا ہے کہ اس کی نجات میری تباہی پر منحصر ہے؛ لہٰذا، خدا تعالیٰ کی ذات برتر کے علاوہ مجھے اپنے لئے کوئی اور پناہ دکھائی نہیں دیتا۔“
پیشِ کہ بر آورم ز دستت فریاد / ہم پیشِ تو از دستِ تو میخواہم داد
(تیرے متعلق کس کے سامنے فریاد لے جاوں؟ / تیرے متعلق تجھی سے انصاف چاہتا ہوں)
ان دلخراش الفاظ نے بادشاہ کا دل نرم کردیا اور اس نے کہا کہ، ”معصوم خون بہانے سے مرجانا بہتر ہے۔“ اس نے لڑکے کو گلے لگایا اور بے پناہ دولت سے نوازا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر بادشاہ صحت یاب ہوگیا۔
سعدی کی حکایت خوشی پر اختتام پذیر ہوتی ہے، لیکن غیر رضاکارانہ طور پر گمشدہ افراد اور ان کے رشتہ داروں کیلئے ایسی کوئی قسمت نہیں ہے، کیونکہ پوری کی پوری ریاست ان کیخلاف صف آراء ہے اور انہیں چھڑانے کیلئے وہاں کوئی قابل عمل عنصر موجود نہیں ہے۔ وہ ان لوگوں سے تلافی کے طلبگار ہیں جو ان کے مصائب کا منبع ہیں۔ کسی کو بھی ایسی صورت میں ڈال دیا جائے تو قدرتی طور پر وہ اپنے آپ کو ’افتادہ اور ناامید‘ ہی محسوس کر ے گا۔ مذکورہ بادشاہ تو نوجوان کی دردانگیز بات سے متاثر ہوا تھا لیکن یہاں پر تو حکمران ریاست کے ہاتھوں سینکڑوں بلوچ اور دیگر سرگرم کارکنوں کے المناک اور سفاکانہ اموات اور انکے لاپتہ ہونے پر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
جیساکہ حکایت میں، بادشاہ کی زندگی نے لڑکے کی موت کا مطالبہ کیا تھا؛ یہاں بھی ویسا ہی ہے۔ ریاست کو یہ لگتا ہے کہ اس کی زندگی داو پر لگی ہوئی ہے اور یہ بات اسے قتل کرنے پر اکساتی ہے۔ لہٰذا، ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے وفد نے کہا کہ، ”اس سلسلے میں ہم اعلامیے کے آرٹیکل نمبرسات کی طرف آپکی توجہ مبذول کراتے ہیں جو کہتا ہے کہ ’کسی صورت میں بھی، خواہ جنگ کا خطرہ ہو، حالت جنگ ہو، داخلی سیاسی عدم استحکام یا کسی دیگر عوامی ایمرجنسی کی حالت، جو جبری گمشدگی کو جائز قرار دینے کا جواز پیش کرے، غلط ہے۔‘ ظاہر ہے، یہ قتل قصورواروں کیلئے سزا سے استثنیٰ کے بغیر نہیں کیے جاسکتے؛ سزا سے استثنیٰ مظالم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔“ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پیلے نے یہاں اپنے دورے کے دوران کہا کہ،”سزا سے استثنیٰ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کیلئے خطرناک حد تک تباہ کن ہے۔“ یہ نہ صرف قانون کی حکمرانی کیلئے تباہ کن ہے بلکہ اخلاقی اصولوں پر مبنی حکمرانی کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ سزا سے استثنیٰ قطعی طور پر کسی بھی ہستی کے وجود کے قیام کے جواز کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے ’جبری گمشدگی کے جرم پر ایک نئے اور خود مختار ادارے‘ کے قیام کی سفارش کی ہے۔ میں انہیں سادہ لوح تو نہیں کہوں گا جو یہاں ایک تبدیلی کیلئے امید رکھتے ہوں، لیکن تجربہ ایسی امیدوں کو جھوٹی تسلی قرار دیتی ہیں۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ، ”ورکنگ گروپ کو یہ الزامات موصول ہوئے ہیں، ان میں سے کچھ افراد کے ذریعے کہ جن سے ہم ملے تھے، ان کیمطابق انہیں دھمکی دی گئی تھی یا خوفزدہ کیا گیا تھا۔ ہم ریاست سے کہتے ہیں وہ لوگ جو ہم سے ملے ہیں، ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے اور کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی، دھمکی یا انہیں خوفزدہ کرنے کیخلاف ان کی حفاظت کی جائے۔“ اور مزید یہ کہ، ”ڈبلیو جی ای آئی ڈی کو موصول ہونے والی معلومات کیمطابق، جبری گمشدگیوں کا رجحان سیاسی یا انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنانے کا ایک آلہ بھی ہے، جو کہ قانونی طور پر اپنے اظہار، تعلق اور اجتماع کی آزادیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کیخلاف تشدد بلا امتیاز اور وسیع پیمانے پر ہے۔ اگر لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے، حالانکہ وہ محض اپنی شکایات کے اندراج کے ایک وسیلے کو استعمال کررہے ہوں، مستقبل میں کیا ہوتا ہے، یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ”حقائق جاننے والا“ مشن فقط ”انسانی“ بنیادوں پر مبنی تھا اور انہیں کسی طور سے بھی ثبوت جمع کرنے کا کام نہیں سونپا گیا تھا کہ جس سے وہ فوجداری کارروائی شروع کریں، کیونکہ یہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے دائرہء کار میں نہیں ہے۔“ لیکن پھر بھی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ جب لاپتہ افراد کا معاملہ زیر سماعت ہے تو اقوام متحدہ کے وفد کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت کیوں دی گئی ہے؟ یہ بات اس حقیقت کے باوجود کہ اسی سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ، ”ہم اس بیان سے مطمئن نہیں ہیں جیسا کہ ہم اس معاملے کے ہر کیس کی انفرادی طور پر سماعت کر رہے ہیں،“ اور انہوں نے مزید کہا ہے کہ لاپتہ افراد فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پاس ہیں اور اس کیخلاف ثبوت بھی موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 1700 تا 1800 واقعات میں سے 1000 واقعات میں ایف سی کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات ہیں۔ یہاں جس طرح سے اس معاملے سے نمٹا جا رہا ہے، اسکی قسمت میں ہمیشہ کیلئے زیر سماعت رہنا لکھا ہے اور مستقبل کے دوروں کیخلاف ’اسٹابلشمنٹ‘ شدید ترین مزاحمت کرے گی کیونکہ یہ انکے غلط کاموں اور کھوکلے پن کو بے نقاب کرکے انہیں ایک عجیب پوزیشن میں لاکھڑا کردیگی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو افتادہ اور ناامید محسوس کررہے ہیں، ویسے ہی رہیں گے: افتادہ اور ناامید۔
آخر میں ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے کہا، ”ایک لاپتہ شخص کی ماں نے ہم سے ان تمام افراد کو یہ پیغام پہنچانے کا کہا ہے جو پاکستان میں عوامی معاملات کے کرتا دھرتا ہیں۔ اس نے پوچھا، ’اگر آپ کا بچہ غائب ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟“‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سوال اس آزمائش کا خلاصہ ہے جس سے یہ خاندان گزر رہے ہیں۔ عزیز قارئین، اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے کے بعد، ایک لمحے کیلئے ان لوگوں کے درد کے بارے میں سوچیں جو اب بھی لاپتہ ہیں، ان کے بارے میں جن کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں، اور کرب میں مبتلا ان کے رشتہ داروں کے بارے میں۔ پھر غور کریں کہ ہماری خاموشی اس ناانصافی کی کتنی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 23 ستمبر، 2012
To Download/Read in PDF cleck: Hear