Daily Archives: September 24, 2012
شہید آجوئی علی شیر کرد کی یاد میں
کیا عقل کا چراغ تھا ، خاموش ہوگیا
کیا دل تھا دھڑکنوں کی تلاطم میں سوگیا
سمجھمیں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں ؟کیوں کہ لکھنا وہ بھی ایسے عملی انسان کے بارے میں کسی امتحان سے کم نہیں ، شاید آُ پ محسوس کریں گے کہ میں جذباتی ہوگیا ہو ٹھیک کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ جو لوگ جذباتی نہیں ہوتے وہ جذبات کی گہراءی کو بھی سمجھ نہیں پاتے ، اور پھر ڈاکٹر اللہ نذر کے بقول ہر نظریہ ہر تخلیق ہر عمل کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور اپنے منزل کو حاصل کرنے کے لیے پاگل پن کی حد تک جنونیت کی حد تک جذباتی ہوناچاہیے ۔یہی جذباتی پن وطن کے عظیم سپوت بلوچ سرمچاروں میں پایا جاتا ہے اور یہی وہ جذباتی پن ہے جس نے دشمن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
Continue reading
Filed under Write-up
بلوچ قومی تحریک اور اعلانء آذادی – شہید علی شیر کرد
ممتاز کالم نگار اور قانون دان شہید ایڈوکیٹ علی شیر کرد جو دس سال بلوچی مزاحمتی تحریک سے وابستہ رئے ، جنہیں ۲۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو شالکوٹ سے پاکستانی ریاستی خفیہ اجنسی نے اغواء کیا اور ۲۴ دسمبر۲۰۱۲ء کو خضدارسے ان کی تشدد زدہ نعش ملی، شہید کے چپے مختلف مضامین میں سے ایک قارئیں کیلئے پیشِ خدمت ہے۔
بلوچ تحریک آذادی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے قومی شعور و بیداری میں اھم کردار ادا کی ہے لوگوں کو منظم کرکے تحریک آذادی سے متعلق جو شعور گزشتہ ایک عشرے میں تحریک آذادی نے دی شاید سیاسی پارٹیوں نے دن رات محنت کرکے گذشتہ ساٹھ سالوں میں بھی نہ دے سکے، اصل وجہ پروگرام اور مقصد ہے بنا مقصد سفر کا کوئی منزل نہیں ھوتا، اور اگر منزل ہی نہ ھو تو سفر چاہے کتنا ہی کٹھن اور تھکا دینے والا ھو فضول ہے. گذشتہ 66 سالوں سے بنا مقصد لوگوں کو اصل منزل و مقصد بتائے بغیر سیاسی پارٹیوں نے ہانکنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں تاکہ لوگوں کے جم غفیر کو جواز بنا کر ریاست کوبلیک میل کرکے چند نوکریاں، گاڑی بنگلہ پیسہ، سیٹ،یا پلاٹ پرمٹ لے کر مال بٹورنے کی کوششیں تھیں اس طرح صرف مال بناو پارٹی ہی کامیاب ہوتے رہے اور لوگوں کے بے ترتیب خیالات و نظریات سے نوازنے کی کوشش کرتے رہے
Continue reading
Filed under Interviews and Articles
COMMENT : Feeling abandoned and hopeless — Mir Mohammad Ali Talpur
The WGEID clearly stated that theirs was a “fact finding” mission based on “humanitarian” considerations and they were in no way tasked with collecting evidence
The delegation of the United Nations Working Group on Enforced or Involuntary Disappearances (WGEID) composed of Olivier de Frouville, chairperson, and Osman El-Hajjé, on conclusion of its ten-day official visit gave its views in a brief report. They poignantly underlined the plight of the missing persons in Balochistan and other places with, “Most of the families we have met, telling their stories, felt abandoned and hopeless.” That is the only way that the families can feel when their missing relatives have been ‘involuntarily disappeared’ by the state and are left with no recourse to justice because no institution, even if it so desired, is strong or foolhardy enough to challenge those responsible for ‘enforced and involuntary disappearances’.
Filed under Mir Mohammad Ali Talpur, Write-up