جب کبھی بھی قدرتی آفات آئیں، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو سیکورٹی کے نام پر عائد بلا جواز پابندیوں کے سبب کوئٹہ کے سرینا ہوٹل تک محدودکیا گیا
حال ہی میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خلیل اسجد ڈیل کی سرکٹی لاش، جنھیں طالبان نے کوئٹہ سے جنوری میں اغواءکیاتھا، اتوار 29 اپریل کو کوئٹہ سے برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ پائے گئے ایک خط میں بے باکی سے اعلان کیا گیا: ”یہ خلیل کی لاش ہے جسے ہم نے تاوان کی رقم کی عدم ادائیگی پر ذبح کیا ہے۔“طالبان نے تو ذمہ داری کا دعویٰ کرلیا ہے لیکن پولیس اغوا ءکاروں کی شناخت کو گھما پھرا کر پیش کر رہی ہے چونکہ یہاں ’ا سٹریٹجک اثاثے ‘ انتہائی مقدس ہیں۔
ڈاکٹر خلیل اسجد ڈیل کے ایک مسلمان ہونے کی حقیقت نے انکے مسلمان اغوا کاروں کو باز نہیں رکھا، اور نہ ہی اس حقیقت نے کہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہے تھے، جو کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کے نزدیک انسانیت یا مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب لوگ مذہبی ترغیب کی بنیاد پر اس طرح کے لا اُبالی پن اور گناہگارانہ انداز سے کارروائی کریں، تو یہ چیز معاشرے اور ریاست کے اندر سماجی تباہی کی شدت کو نمایاں کرتی ہے۔ اغوا برائے تاوان ’ریاست کی پروردہ‘ ان بنیاد پرست تنظیموں کےلئے ایک منافع بخش کاروبار ہے، جنھیں لگتا ہے کہ انھیں توثیقِ الہٰی بھی حاصل ہے۔ اس کے بالکل برعکس، اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین کے کوئٹہ کے ڈائریکٹر جان سولیکی، جنھیں 2009 میں قوم پرستوں نے بلوچ مسئلے کو اجاگر کرنے کےلئے اغوا کیا تھا، بنا کوئی نقصان پہنچائے بغیر تاوان کے رہا کر دیا تھا۔ ایجنسیوں نے بلوچ سے اسکا بدلہ لینے کیلئے 9 اپریل، 2009 کو تین ممتاز قوم پرست رہنما، غلام محمد بلوچ، صدر بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)، بی این ایم کے لالہ منیر اور بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے شیر محمد بلوچ کو قتل کردیا۔
پاکستانی ریاست عام طور پر بنیاد پرستوں کی معاونت کرتی ہے تاکہ وہ اسکے ’ریاستِ الٰہیہ‘ کے خواب کی تعبیر میں مدد دے سکےں۔ اس نے ان ’غیر ریاستی اداکاروں‘ پر بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اس امید پر کہ وہ اپنا ہلالی پرچم لال قلعے یا کم از کم سرینگر میں لہرا سکے؛ اور امت کی مضبوط فصیل ہونے، اسلامی دنیا کی قیادت کا بیڑا اٹھانے والوں کا وارث ہونے، امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے، اور ’اسٹریٹجک گہرائی‘ کا تحفظ کرنے کی غرض سے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ پاکستان اپنی 65 سال کی نسبتاً کم عمری ہی میں ایک ضعیف وشکستہ ہستی بن چکی ہے۔
بدقسمتی سے، یہ بڑھتی ہوئی تاب و تواںاور عزم کے ساتھ وہ سب کام کر تی جارہی ہے، جو کہ اس کی تباہی کے پیچھے کارفرما رہی ہیں۔ یہ اپنے ان ’اسٹریٹجک اثاثوں‘ کی معاونت اور مدد جاری رکھے ہوئے ہے جو دنیا بھر میں دہشتگردی اور35000 شہریوں کی اموات کےلئے ذمہ دار ہیں، اور تاحال یہاں جاری و ساری دیدہ دانستہ دہشتگردی کےلئے بھی ذمہ دار ہیں۔ وہ سیکھنے سے منکر ہیں اور اپنے خیالی پلاو ¿ کی تکمیل کےلئے لوگوں کو محرومی اور تباہی کی ایک عمیق جہنم کی طرف گھسیٹ رہے ہیں۔
ریاست اب بلوچستان میں قوم پرست جدوجہد کےخلاف جماعت الدعوة کی شکل میں ایک جارہانہ مشن پر گامزن ہوچکی ہے، جس کی غیر خوش آئند موجودگی کو بلوچ پر جلد ہی تھوپ دیا جائے گا جو کہ پہلے ہی سے اسکے مذموم عزائم پر چوکنّا ہیں اور وہ یہ سب کچھ صدقہ اور امداد کے لبادے (اور اب پاکستانی قوم پرستی) کی آڑ میں کررہی ہے۔ بلوچستان، عرصہ دراز سے فرقہ واریت اور مذہبی منافرت سے آزاد رہی ہے، لیکن جب جماعت الدعوة جوکہ فوج اور فرنٹیئر کور کے زیر سایہ اور ان کے ایک معاون کے طور پر کام کررہی ہو، تو یقیناماحول کو زہرآلود کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔
بلوچ کی فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے ناپسندیدگی نے انھیں ان کے اولین بنیاد پرست اتحادیعنی دفاع پاکستان کونسل کی دوستانہ تعلقات کے آغاز کی کوششوں کو رد کرنے پر مجبور کیا تاکہ فروری میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقدکرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جاسکے۔ انہوں نے 9 مارچ کے ’یکجہتی کا دن‘ پر بھی ان کودور رکھا۔ ان چالبازیوں کی ناکامی پر، اب جماعت الدعوة کی فلاح انسانیت فاو ¿نڈیشن نے 350 رکنی ڈاکٹروں، اساتذہ اور انجینئروں کی ایک ٹیم کو صوبے کے دیہی علاقوں میںبھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے سربراہ حافظ سعید کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی یہ ثابت کرے گی کہ حکومت کو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کےلئے جماعت الدعوة کے نظریے کی ضرورت ہے۔ کوئی نظریہ! یہ ایک نحوست ہے اور بلوچستان کےلئے ایک نہایت ہی برا شگون ہے کیونکہ جماعت الدعوة رفاحی کاموں کے نام پر شیطانی فرقہ واریت کے بیج بوئے گی، جس کا پھل گلگت، کوئٹہ وغیرہ، پہلے ہی کھا چکے ہےں۔ ان کے زہر بھرے صدقات نفرت کی کڑوی فصلیں بوئیں گی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں بلوچستان میں کئی قدرتی آفات آئے ہیں جہاں بین الاقوامی مدد کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ جون 2007 میں یمین نامی طوفان نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھااور پندرہ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ تب لوگوں کی پریشانیاں دگنی ہوگئیں جب ابتدائی منظوری کے بعد، بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی اجازت اچانک منسوخ کر دی گئی، بناوٹی طور پر سیکورٹی خدشات کے پیش نظر۔ اس کے علاوہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر قوم پرست تنظیموں کی طرف سے کیے جانیوالے امدادی آپریشن بھی روک دیے گئے اور ان کے کیمپوں کو زبردستی منتشر کردیا گیا۔ اسی طرح جون 2010 میں جب فیٹ نامی طوفان نے گوادر، پسنی اور دیگر ساحلی شہروں میں قہر پربا کیا تو ایک بار پھر امداد لینے سے انکار کردیا گیا۔ جب کبھی بھی قدرتی آفات آئیں، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو سیکورٹی کے نام پر عائد بلا جواز پابندیوں کے سبب کوئٹہ کے سرینا ہوٹل تک محدودکیا گیا۔ داخلی طور پر بے گھر افراد کی امداد کو بھی روکا گیا ہے اور بظاہر بلوچ کےلئے بین الاقوامی امداد سے انکار کی یہ پالیسی یقینا کسی تبدیلی کےلئے تو نہیں ہے۔
جماعت الدعوة کی معاونت کی جارہی ہے، اسلئے کہ ان کے منصوبے ریاست کے منصوبوں کے عین مطابق ہیں اور ان کی کمی کو پورا کر رہے ہیں۔ ریاست کے پروردہ ’اسٹریٹجک اثاثے‘ اب تک اپنی دہشت گردانہ مہمات میں 35000 سے زائد زندگیاں چھین چکے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بلاجواز تباہی کے دیوتاو ¿ںکی ابھی تک تسکین نہیں ہوئی ہے اور وہ مزید تباہی کا مطالبہ کررہے ہیں؛ لہٰذا بلوچستان میں جماعت الدعوة کو داخل کردیا گیا ہے۔
بلوچستان کے عوام کو یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ ان رجعت پسند قوتوں کو اگر ایک انچ بھی دے دیا گیا تو یہ ایک میل ہڑپ لیں گے۔ یہ قوتیں نیٹو کی رسد پر ایک دہائی تک خاموش تھے، لیکن جب ایک بار حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی ، تو اب وہ ڈکٹیٹ کریں گی، اور تمام شعبوں میں مسئلہ یہی رہا ہے۔ قدرتی طور پر، یہ قوتیں اپنے بنیاد پرست نظریے کے ساتھ پورے سماج پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے آئی ہیں، جنہوں نے اب اپنی گرفت قائم کرلی ہے۔ اگر بلوچ نے انہیں ایک انچ کی جگہ بھی سونپی تو یقینا وہ پشیمان ہونگے، کیونکہ جو مالی معاونت اور مدد ان کے لیے دستیاب ہے، اس سے وہ اپنے نفرت کے ایجنڈے کے ساتھ بلوچ معاشرے کو ناقابل اصلاح حد تک زہر آلود کردیں گے۔
آخری بات: لیاری کی حالت زار کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی۔ اجتماعی سزا کی نازی اور اسرائیلی حکمت عملی کی دھمکی بھی دی جارہی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی کیا جارہا ہے۔ وہاں کے لوگ خوراک، پانی اور بجلی کے بغیر رہ رہے ہیں اور یہاں تک کہ ایدھی فاو ¿نڈیشن کو انسانی بنیادوں پر مدد کرنے سے بھی روکا جارہا ہے۔ حکومت اور میڈیا کی پروجیکشن نے وہاں کے انسانی بحران کو مجرموں پر ایک کریک ڈاو ¿ن کے طور پر دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ بہت سے جوشیلے بلوچ کارکن اس کا موازنہ غزہ کے ساتھ کر رہے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرح کی تمثیل قبل از وقت ہے کیونکہ وہاں بہت سی الجھی ہوئی گتھیاں ہیں، اور غزہ کی ساکھ ایک دن میں نہیں بنی۔ اگر لیاری کے لوگ اپنے سیاسی اور فوجی سبق باقاعدہ طور پر اچھی طرح سیکھ لیں، تو اس سفاکانہ حملے سے، بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے ادا کرنے کو ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ہے، اور اگر مستقبل میں قیادت خالصتاً سیاسی اور قوم پرست ہوئی، تو پھر دوسرا دور جب کبھی بھی آ یا، وہ شہری بلوچ جدوجہد میں ایک نیا باب ہو گا۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
mmatalpur@gmail.com
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ، 6 مئی 2012
To Download/Read in PDF: Bila.Jawaz.Tabahi.Ke.Devta_Mir Mohammad Ali Talpur