آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کا سلسلہ1542 سے لے کر اب تک ’ان کے گلے پہ خنجر رکھے‘ برقرار رہا اور آئر لینڈ کی تقسیم عمل میں آئی۔ پاکستانی ریاست بھی بلوچستان کےلئے یہی راہ اپنائے ہوئے ’ان کے گلے پہ خنجررکھے‘ بلوچ قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مگر پھر بھی بلوچ نے اسے تسلیم نہیں کیاہے اور بلوچ خون کی بڑی قیمت پر اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے
”میرے گھر میں ایک ڈاکو گھس آئے، میری گردن پہ خنجر رکھ کر مجھ سے میری جائیدادکو اپنے نام کروالے ، کیا یہ اسے کوئی خطاب دے گا؟ بس ویساہی خطاب جیسا کہ ایک ظالم فاتح، جس نے اپنی تلوار کے بل بوتے مجھے اطاعت پر مجبور کیا ہو۔ یہ چوٹ اور جرم یکساںہے، چاہے اسے کسی تاج پوش نے کیا ہو یا کسی چھوٹے موٹے غنڈے نے۔“ (جان لوک)
ریاست کی طرف سے انکی آبادیاتی خصوصیات میں ظاہری اور خفیہ طور پر تبدیلیوں کی تدبیر کے مہلک اثرات کاخوف بلوچوں میں یقینی طور پر بلاوجہ نہیں ہے۔ وہاں پاکستان نے بلوچ اکثریت کو کم کرنے کی کوششیں تسلسل کیساتھ جاری رکھی ہوئی ہیں تاکہ پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں قدرتی وسائل اور اس کی وسیع و عریض زمین کا وسیع پیمانے پر استحصال کرنے کی کوششوں کےخلاف مزاحمت کےلئے پائی جانی جانیوالی حمایت کو کمزور کیا جاسکے۔ نام نہاد ترقی کے پروگرام، جیسا کہ گوادر پورٹ یا میرانی ڈیم جیسے انفرااسٹرکچر، شاہراہیں وغیرہ محض آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کی تدابیر ہیں جوکہ ا ب ایک سست رفتار نسل کشی میں بدل دی گئی ہیں؛ چھاو ¿نیاں اور بحری اڈے ’لوگوں کو اطاعت پرمجبور کرنے کی تلواریں ہیں‘۔
امریکہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی نوآبادیات کا عمل بہت واضح ہیں۔ میں تدبیرشدہ آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے اثرات کی وضاحت کرنے کیلئے آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی مثال لوں گا کہ کس طرح وہاں دیسی لوگوں کے انتقام اور انکی مزاحمت کے سبب مختلف نتائج سامنے آئے۔ یہ بلوچ کی پاکستانی سیادت کیخلاف مزاحمت کےلئے ایک معقول اور مشابہ مثال بھی ہے۔
شمالی آئر لینڈ آج برطانیہ کے چار ممالک میں سے ایک ہے، تاہم اس قبل بھی یہ آئر لینڈ ہی تھا۔ برطانیہ کی 2001 کی مردم شماری بتاتی ہے کہ اس کی آبادی 1685000 تھی اور یہ برطانیہ کی تین فیصد آبادی ہے لیکن آئر لینڈ کی کل آبادی کا 30 فیصد ہے۔ نوآبادکاروں نے اپنے لئے سب سے بہترین علاقہ منتخب کیا ، پس وہاں اپنی آبادی مرتکز کی۔
آج شمالی آئر لینڈ آئرش صوبے اُلسٹر کی نو میں سے چھ اضلاع پر مشتمل ہے۔ اسے 3 مئی 1921 کو آئر لینڈ حکومت کی ایکٹ 1920 کے تحت برطانیہ کی ایک جداگانہ ڈویژن کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اپنی منفرد تاریخ، علامتیت و رمزیت ، نام، اوصاف، شہریت اور تشخص کی وجہ سے شمالی آئرلینڈ کافی پیچیدہ ہے۔ عام طور پر یونینسٹ ، نصب شدہ پروٹیسٹنٹ آبادی خود کو برطانوی تصور کرتی ہے اور قومپرست، جوکہ زیادہ تر آئرش رومن کیتھولک ہیں، خود کو آئرش کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم ان کی شناخت کا باہمی طور پر اختصاصی ہونا ضروری نہیں ہے۔
آئر لینڈ کی برطانوی نوآبادیت کیخلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ خطہ جو کہ اب شمالی آئر لینڈ ہے، 16 ویں صدی کے اواخر میں آئرش مزاحمتی جنگ کی اساس تھا۔ 1542 میں، اگرچہ شاہ ہنری ہشتم نے اسکا آئر لینڈ کی بادشاہت کے طور پر اعلان کیا تھا، آئرش مزاحمت نے انگریزی تسلط کوتتر بتر کردیا۔ تاہم، 1607 میں کنسیل کی لڑائی میں آئرش شکست کے بعد خطے میں پروٹسٹنٹ انگریزی (بنیادی طور پر اینگلیکن) اور اسکاٹش (بنیادی طور پر پریسبیٹیریئن ) آبادکاروں کی آبادکاری کی گئی۔ 1610 اور 1717 کے درمیان اسکاٹ لینڈ سے تقریباً 100000 لولینڈرز Lowlanders آبسے، اور 1717 تک اُلسٹر میں ہر تین آئرش پر تقریباًپانچ اسکاٹش اور ایک انگریز ہوا کرتے تھے۔ اس تدبیر شدہ آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی نے شمالی آئر لینڈ کو جنم دیا۔
آئرش لوگوں نے اپنی آزادی کےلئے جنگ کا سلسلہ جاری رکھا لیکن 1691 میں ان کی شکست کے بعد آئر لینڈ میں اینگلیکن حکمران طبقے نے آئرلینڈ میں تعزیراتی قوانین کا ایک سلسلہ منظور کیا جوکہ کیتھولک (پڑھئے آئرش) کمیونٹی کے لئے مادی طور پر غیرمفید ثابت ہوئیں۔ اس ادارہ جاتی امتیاز نے کمیونٹیز میں خفیہ، عسکریت پسند معاشروں کی ترویج کی اور پر تشدد حملوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھی گئی؛ جس میں قومپرستی اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ متراکب ہوگئے تھے۔
1798 میں بیلفاسٹ میں قائم سوسائٹی آف یونائیٹد آئرشمین کی کُل کمیونٹی بغاوت ، جوکہ انقلاب فرانس سے متاثر تھی، اس نے آئر لینڈ اور برطانیہ کے درمیان آئینی تعلقات توڑ کرنے کی کوشش کی اور آئرش لوگوں کو متحد کرنے کی سعی کی۔ فرانسیسی طرز کے ریپبلیکنزم کے پھیلاو ¿ کو روکنے کےلئے، برطانیہ نے آئرلینڈ کو ضم کرلیا اور 1801 میں برطانیہ کی متحدہ باشاہت تشکیل دی جس میں آئر لینڈ پر لندن سے حکومت کی جانے لگی۔
نا انصافیوں کے خلاف آئرش لوگوں انتھک جدوجہد کی وجہ سے، 1912 میں پارلیمنٹ کے ایکٹ 1911 کے ساتھ آئر لینڈ کی خود مختاری کا مطالبہ ایک حقیقت بن گیا جب ہاو ¿س آف کامنز نے یہ ادراک کرلیا کہ آئرش لوگوں کو مزید غلام نہیں رکھا جا سکتا ہے، انہوں نے ہاو ¿س آف لارڈز کے اعتراضات کو ویٹو کیا جو کہ خونخوار حد تک یونینسٹوںکے حامی تھے۔ 1914 میں، خانہ جاتی حکومت کے مخالفین نے، یونینسٹ سیاستدانوں ، عسکریت پسندوں اور نیم فوجی تنظیم’ اُلسٹر کے رضاکاروں‘ کے لئے امپیریل جرمنی سے ہزاروں رائفلیں اور گولہ بارود اسمگل کیں تاکہ وہ خانہ جاتی حکومت کی پرتشدد مخالفت کرسکیں۔ یہاں ریاست بلوچ مسلح دفاع تنظیم اور تحریک نفاذ امن بلوچستان کو بلوچستان میں اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لئے مدد کررہی ہے۔
یونینسٹ، اگرچہ آئر لینڈ میں ایک اقلیت تھے لیکن شمالی صوبے اُلسٹر کے چھ اضلاع میںاکثریت، جو آئر لینڈ کی تقسیم کا سبب بنیں اور یہ چھ اضلاع شمالی آئر لینڈ بن گئے جبکہ بھاری اکثریت رکھنے والے قومپرست 26 اضلاع جمہوریہ آئرلینڈ بن گیا۔ برطانیہ کو ’ظالم فاتح کی تلوار‘ کاخطاب مل گیا۔
بالآخر 1921 میں آئر لینڈ لایڈ جورج کی آئر لینڈ حکومتی ایکٹ 1920 کی شرائط کے تحت شمالی آئر لینڈ اور جنوبی آئر لینڈ کے درمیان تقسیم ہوگئی، اس بات پر اتفاق آئر لینڈ اور برطانیہ کے درمیان لڑی جانیوالی جنگ آزادی کے دوران کیا گیا۔ 6 دسمبر 1922 کو اس جنگ کے اختتام پر شمالی آئرلینڈ عبوری طور پر اس نئے آزاد آئرش ریاست کا ایک خود مختار حصہ بن گیا۔
تاہم، جیسا کہ امید کی جارہی تھی، شمالی آئر لینڈ کی پارلیمنٹ نے آزاد آئرش ریاست سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اسکے کچھ ہی عرصے بعد، آزاد آئرش ریاست اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان علاقائی حدود کی حدبندی کرنے کےلئے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ ڈبلن میں موجود آئرش رہنما شمالی آئر لینڈ کے علاقے میں کافی کمی کی امید کررہے تھے لیکن انھیں آزاد ریاست کو برطانیہ کے عوامی قرض کی مالی ذمہ داریوں سے چھوٹ کے وعدے کے ذریعے بلیک میل کیاگیا۔
آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی 1542 سے لے کر اب تک ’ان کے گلے پہ خنجر رکھے‘ برقرار رہی اور آئر لینڈ کی تقسیم عمل میں آئی۔ پاکستانی ریاست بھی بلوچستان کےلئے یہی راہ اپنائے ہوئے ’ان کے گلے پہ خنجررکھے‘ بلوچ قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مگر پھر بھی بلوچ نے اسے تسلیم نہیں کیاہے اور بلوچ خون کی بڑی قیمت پر اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہاں بھی بلوچ مزاحمت ابھی تک کسی وقفے کے بغیر جاری ہے، جیسا کہ پورے آئر لینڈ کےلئے آئرش ریپبلکن آرمی (آئی آر اے) کی مزاحمت تھی جوکہ 1921 تک جاری رہی اور عبوری آئی آر اے تک جب شمالی آئرلینڈ میں ’گڈ فرائڈے کے معاہدہ‘ کے نفاذ ہوا۔ شمالی آئر لینڈ میں یونینسٹوں کو رائل اُلسٹرکانسٹیبلری مدد کرتی رہی اور یہاں ان کو فرنٹیئر کور مدد کر رہی ہے۔ وہاں کی طرح یہاں بھی بہت سے ایان پیسلے موجود ہیں جو کہ خود شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔
30 جنوری 1972، ڈیری میں ’خونی اتوار‘ ، جس میں سات نوعمر افراد سمیت 13 مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے، یہ شمالی آئر لینڈ میں جدوجہد کا محرک بنا۔ بلوچستان میں اگرچہ ہر دن ایک ’خونی اتوار‘ہے، اب کے یہ 15 جولائی 1960 (20 محرم الحرام 1380 ھ) کا ’خونی جمعہ‘ تھا جب نواب نوروز خان کے سات بلوچ آزادی کے جنگجوو ¿ں کو سکھر اور حیدرآباد کی جیلوں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جس نے اس جبری طور پر نافذ العمل وفاق کو برباد کردیا ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کے عشرے کے ابتداءسے ایک تعلق ہے۔
Via Daily Times
To download in PDF: Khoni.Juma.Atwar_Mir Mohammad Ali Talpur