
Nawab Marri
بلوچوں کے بچے والدین سے کھلونوںکے بجائے ہتھیار مانگ رہے ہیں۔ خون کی ندیاںبہنے کے بعد بلوچ قوم کے پاس لڑنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ ہر بلوچ سے کہوں گا کہ ہتھیار نہیں پھینکنے ہیں، دن میںعام آدمی بن کے رہو اور رات کو اپنے دشمن پر بجلی بن کے گرو۔
خضدار (ریاض مینگل) ممتاز بلوچ قوم پرست بزرگ رہنماء نواب خیر بخش مری نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل پیکیجز میںنہیںہم اب بہت آگے نکل چکے ہیں۔ بلوچوں کے بچے والدین سے کھلونوںکے بجائے ہتھیار مانگ رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نواب خیر بخش مری نے گزشتہ روز سندھ سے شائع ہونے والے روزنامہ عبرت کی ایک ٹیم کو خصوصی انٹرویوں دیتے ہوئے کیا۔
ایک سوال کے جواب میںنواب مری نے کہاکہ خون کی ندیاںبہنے کے بعد بلوچ قوم کے پاس لڑنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیںہماری جنگ صرف سرزمین کی آزادی کیلئے ہی نہیںبلکہ استحصال سے پاک نظام کی تشکیل کےلئے ہے اور وہ یقینا سوشلزم ہے، برصغیر کی تقسیم انگریزوں کی جانب سے طے شدہ پلان کا حصہ تھی، پاکستان کی پارلیمنٹ امریکہ کے زیر اثر ہے، بلوچ اب آخری دم تک لڑیںگے، ہمارا مسئلہ نوکریوںسے آگے نکل چکا ہے آج ہم سے بچے کھلونے نہیںبلکہ ہتھیار مانگتے ہیں بلوچ عوام کی یکجہتی نے حالات کو یکسر تبدیل کردیا ہے اب لڑائی صرف پہاڑوں پر نہیںمزاحمت کار کوئٹہ جیسے شہر میںبھی لڑرہے ہیں پاکستان میںعدلیہ اور جموریت کا کوئی وجود نہیںبلوچ قوم کو بیرونی سطح پر وہ حمایت حاصل نہیںجو کشمیر اور فلسطین کو حاصل ہے. ان خیالات کا اظہار انہوںنے ایک سندھی روزنامے کو دیئے گئے انٹرویوںمیںکیا۔
نواب مری نے کہا کہ آج بلوچستان جل رہا ہے اور اس کی ذمہ دار عالمی قوتیںہیں, جن کی پشت پناہی سے ہی پاکستان نے محکوم قوموںکو اپنا غلام بنا رکھا ہے ان کا کہنا تھا کہ بلوچ سردار اپنے ماضی کے تجربات سے بہت کہچھ سیکھ چکے ہیں۔ لیکن اب بھی کچھ ہیں جنہیںیہ امید ہے کہ انہیںکچھ پیسے اور نوکریاںمل جائیں گی لیکن بلوچوںکی جدوجہد اب پیکیجز سے آگے نکل چکی ہے، اب بلوچ قوم آخری دم تک لڑے گا۔ اور اس جنگ کا تسلسل ہی عالمی قوتوں کو بلوچ مسئلے کی جانب مبذول کرائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ رئیسانی، مگسی اور کچھ مری بھی معمولی مراعات کے لئے بک چکے ہیں۔ ان سے بلوچوںکی بھلائی کی کوئی امید نہیں۔
نواب خیر بخش مری نے کہا کہ گوریلا جنگ بذات خود ایک طریقہ تعلیم ہے، ہر بلوچ کو اب ہتھیار لے کر بلوچستان کی آزادی کے لئے لڑنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میںانہوںنے کہا کہ ہم صرف بلوچ کی نہیں، ہر سماج کی آزادی چاہتے ہیں، ایک ایسا سماج جہاںہر کوئی آزاد ہو اور برابری کی سطح پر زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہو اور ایسا صرف سوشلزم ہی میںمکمن ہے۔
نواب مری نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ نہیںسمجھتے جو انسانوںکو برابری کی سطح پر بولنے کا حق نہ دیتی ہو وہ کیسی پارلیمنٹ ہے۔ نواب مری کا کہنا تھا کہ ستر کی دہائی میںہماری سیاست غلط تھی، ہم میںسیاسی شعور کی کمی تھی اور حالات بھی مختلف تھے، آج صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
نواب خیر بخش مری کا کہنا تھا کہ سندھیوںنے نجانے کیوںغلامی کو قبول کرلیا ہے، آخر وہ ایک چپراسی کی نوکری کےلئے خود کو بیچنے پر کیسے تیار ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاندھی عوام کی طرف سے تھا. بھٹو قوم پرست نہیں بلکہ جمہوری اسلامی سوشلسٹ اور میکاولی تھے جس نے وڈیروںکو بچانے کے لئے سوشلزم کا استعمال کیا۔ نواب مری نے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن ہمارا خون بہایا گیا اب لہو کی ندیاں بہا کے وہ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ ہم ان سے کوئی بات نہیں کریںگے، میںتو ہر گز نہیںکروں گا، جنہیںبات چیت کرنے کا شوق ہے وہ جاکے بات کرلیں۔
ایک سوال کے جواب میںنواب مری نے کہا بلوچستان میںجنگ لڑنے والے گوریلے مستقبل میںسرداری نظام کو قبول نہیںکریںگے، وہ یقینا ایک برابری والا نظام لانا چاہیں گے۔ بالاچ سے متعلق پوچھے گئے سوال میںانہوںنے کہا کہ اس کا تصور آج بھی بلوچستان کے پہاڑوں میںہے، وہ ایک تحریک تھا اور تحریکیں کبھی مرتیں۔
اپنے پیغام میںنواب مری نے کہا کہ ہر بلوچ سے کہوں گا کہ ہتھیار نہیں پھینکنے ہیں، دن میںعام آدمی بن کے رہو اور رات کو اپنے دشمن پر بجلی بن کے گرو۔ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نواب مری نے کہا کہ آج تک کچھ لکھ نہیں سکا، اب لکھنے کی کوشش کروںگا، کہ کوئی کتاب لکھ سکوں۔
Source: Daily Ibrat (Sindhi)